پاکستان میں تقریبا آٹھ ہزار سے زیادہ پٹرول پمپس اور سی این جی سٹیشنز موجود ہیں۔ جہاں سڑکوں پر چلنے والی عوامی ٹرانسپورٹ اور نجی گاڑیوں کو پرچون میں پٹرول اور اس کی مصنوعات اور سی این جی (کمپریسڈ قدرتی گیس) فروخت کی جاتی ہیں۔
ان پٹرول پمپس اور سی این جی سٹیشنز میں اکثر کے ساتھ گاڑیوں کی صفائی (کار واش) اور ٹائر شاپس بھی منسلک ہیں۔
یوں پرچون میں پٹرول اور اس کی مصنوعات اور سی این جی کی فروخت کے شعبے سے ایک لاکھ سے زیادہ کارکنان وابستہ ہیں۔
اگرچہ لاک ڈاؤن کے باوجود پاکستان میں پٹرول پمپس اور سی این جی سٹیشنز کھلے ہیں۔ تاہم دوسرے کئی شعبوں کی طرح پٹرول پمپس اور سی این جی سٹیشنز کے کاروباروں پر بھی لاک ڈاؤن کے باعث برا اثر پڑا ہے۔
پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن نے معاشی اور کاروباری سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اور کئی شعبے تقریبا بند ہو کر رہ گئے ہیں۔ جس سے ان سے وابستہ سرمایہ کاروں کا سرمایہ اور کارکنوں کا روزگار خطرے میں ہیں۔
یاد رہے کہ مہلک کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے مارچ کے مہینے سے لاک ڈاؤن نافذ ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے بین الصوبائی اور شہروں کے درمیان زمینی رابطے منقطہ ہیں۔ جس کے باعث عوامی ٹرانسپورٹ تقریبا پوری طرح سڑکوں سے دور ہے۔ جبکہ نجی گاڑیوں کا استعمال بھی بہت زیادہ کم ہو گیا ہے۔
چھوٹی بڑی گاڑیوں کے سڑکوں پر نہ آنے کے باعث پٹرول اور سی این جی کی مانگ میں بھی کمی آئی ہے۔
آل پاکستان پٹرولیم ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے بانی رکن عبداللہ غیاث پراچہ کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے باعث ملک میں پٹرول اور سی این جی کی فروخت میں کم از کم پچھتر فیصد کمی واقعہ ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ پٹرول پمپس اور سی این جی سٹیشنز ملک بھر میں کھلے ہیں لیکن پبلک ٹرانسپورٹ اور نجی گاڑیوں پر پابندی کے باعث ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پٹرول پمپس اور سی این جی سٹیشنز سے منسلک کار واش اور ٹائر شاپس پر لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔ جس کے باعث یہاں کام کرنے والے کاریگر اور مزدور معاشی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ بلکہ پٹرول پمپس اور سی این جی سٹیشنز کے مالکان کی آمدن میں بھی کمی آئی ہے۔
غیاث پراچہ نے مزید کہا کہ پرچون کی فروخت کم ہونے کی وجہ سے پٹرول اور سی این جی مالکان پٹرول اور اس کی دوسری مصنوعات زیادہ مقدار میں نہیں خرید سکتے۔ جبکہ پٹرولیم کمپنیاں تھوڑی مقدارمیں فروخت کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسے میں پٹرول پمپس کے ملکان کو زیادہ سرمایہ لگانا پڑ رہا ہے۔ جبکہ فروخت نہ ہونے کے برابر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پٹرولیم ایک غیر مستحکم کیمیاوی مادہ ہے۔ اور درجہ عام درجہ حرارت پر بھی بخارات میں تبدیل ہو کر ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پٹرول پمپس کے زیر زمین ذخیروں میں زیادہ عرصہ تک رہنے کے باعث پٹرول کی زیادہ مقدار ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ جو پمپس کے مالکان کے لیے مالی نقصان کا باعث بنتا ہے۔
عبداللہ غیاث پراچہ نے حکومت سے پٹرولیم کمپنیوں کو ڈیریگولارائز کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت مختلف شعبوں کے لیے مراعات اور استثنیٰ کے اعلانات کر رہی ہے۔ لیکن پٹرول پمپس اور سی این جی سٹیشنز کے لیے ایسا کوئی ریلیف پیکج سامنے نہیں آیا۔
بین الاقوامی منڈی میں پٹرول اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا: پاکستان تیل عرب ممالک سے کڑیدتا ہے۔ جہاں ابھی قیمتیں بہت زیادہ کم نہیں ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے اثرات کچھ عرصہ بعد نظر آنا شروع ہوں گے۔
پاکستان جب بین الاقوامی منڈی سے تیل اور اس کی مصنوعات کی اگلی کھیپ اٹھائے گا تو اس وقت اسے کم قیمت ادا کرنا ہو گی۔
یاد رہے کہ پاکستان ہر سال تقریبا چودہ ارب ڈالر کا تیل اور اس کی دوسری مصنوعات درآمد کرتا ہے۔