جنوری سے اب تک پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں 17 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ جہاں سال کے پہلے مہینے میں پیٹرول کی قیمت 90.76 فی لیٹر تھی، وہیں مئی میں یہ بڑھا کر 108.4 روپے فی لیٹر کر دی گئی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی سفارش آئل اینڈ گیس ریگیولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے کی گئی تھی اور جمعے کو وفاقی حکومت نے ان کی منظوری کا اعلان کیا، جس کے ردعمل میں شہریوں کی طرف سے سوشل میڈیا سمیت عوامی حلقوں میں بھی غصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔
پچھلے دو ماہ کے دوران یہ قیمتوں میں بڑا اضافہ ہے۔ مارچ میں فی لیٹر پٹرول کی قیمت 92.89 روپے تھی جو یکم اپریل کو 98.89 ہو گئی اور اب مئی میں 108.24 تک پہنچ گئی ہے۔ اس بڑھتے ہوئے اضافے کو عوام نے ’پیٹرول بم‘ کا نام بھی دیا ہے۔
بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیوں اور کیسے ہوتا ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس کا طریقہ کار جاننے کے لیے ماہرین سے بات کی جس سے پتہ چلا کہ 1999 تک حکومت خود ان قیمتوں کا تعین کرتی تھی، لیکن 2001 کے بعد یہ اختیار اوگرا کو دے دیا گیا۔
پاکستان انسٹیٹوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے ایک تحقیقاتی مقالے کے مطابق 2001 سے پہلے حکومتیں ان مصنوعات کی قیمتوں کا تعین معاشی صورتحال کو بالائے طاق رکھ کر کرتی تھیں اور اس کے پیچھے سیاسی عوامل کار فرما تھے جس سے کبھی کبھار حکومت کو معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑتا تھا۔
لیکن 2001 کے بعد تیل کی مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرنا ایک آزاد ادارے یعنی اوگرا کو سونپ دیا گیا۔ مقالے کے مطابق پاکستان میں تیل کی ضرورت پورا کرنے کے لیے حکومت مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ معاہدے کرتی ہے اور اس کے مطابق قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے۔
اوگرا کے سابق عہدے دار حفیظ اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اوگرا کی جانب سے قیمتوں میں اضافے یا کمی کی سفارش آئل کمپنیز ایڈوائزری کمیٹی کو کی جاتی ہے اور بعد میں قیمتوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔
حفیظ اللہ کے مطابق پاکستان میں تیل کی مصنوعات کی پیدوار، چاہے وہ خام تیل ہو یا فنیشڈ پراڈکٹ جیسے پیٹرول یا ڈیزل، اتنی نہیں ہے کہ ملکی ضرورت کو پورا کر سکیں تو وہ اسے دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے مارکیٹ کی پچھلے ایک مہینے کی قیمتوں کی اوسط نکال کر آئندہ ماہ کے لیے قیمتوں کا تعین کیا جاتا تھا۔ ’لیکن اب درآمد شدہ تیل کے دس ٹینکروں کی اوسط قیمت لگا کر آئندہ ماہ کے لیے قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ یعنی مارکیٹ میں مئی کے مہینے میں 10 ٹینکروں کی جو اوسط قیمت ہوگی اس کی بنیاد پر جون کے لیے قیمت کا اعلان کیا جاتا ہے۔‘
عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھنے کا پاکستان پر اثر
حفیظ اللہ نے بتایا کہ عالمی مارکیٹ میں روزانہ قیمتیں بدلتی ہیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر وہاں قیمتیں بڑھیں گی تو پاکستان میں بھی بڑھیں گی، یا وہاں کم ہوں گی تو پاکستان میں بھی کم ہوجائیں گی۔
انہوں نے کہا: ’چونکہ ہم اوسط نکال کر قیمت کا تعین کرتے ہیں تو اسی اوسط کے حساب سے قیمت کم بھی ہو سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے، اس سے قطع نظر کے عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کتنی بڑھی ہیں یا کم ہوئی ہیں۔‘
مثلاً اگر 3، 7 اور 10 مئی کو عالمی مارکیٹ میں قیمیتیں زیادہ ہوگئی ہوں اور پھر 25،26 مئی کو کم تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جون میں پاکستان میں قیمتوں میں کمی ہوگی۔
حفیظ اللہ کے مطابق پہلے اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ فی لیٹر پیٹرول کی بنیادی قیمت کیا ہوگی۔ اس کے بعد سیلز ٹیکس، پیٹرولیم ڈولپمنٹ لیوی، فریٹ چارجز یعنی ٹرانسپورٹ کے چارجز اور خریداروں کے کمیشن کو ملا کر اس کو ملک بھر میں قائم 29 ڈیپوز پر تقسیم کیا جاتا ہے۔
حفیظ اللہ کے مطابق تمام ڈیپوز میں تقریباً ایک ہی قیمت پر تیل دیا جاتا ہے۔ بعد میں یہ ڈیپوز پیٹرول پمپس کو تیل فراہم کرتے ہے اور قیمت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ’پیٹرول پمپ جتنا دور ہوگا اسی حساب سے پیٹرول کی قمیت بھی زیادہ ہوگی۔ مثال کے طور پر دیر اور سوات میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت پشاور میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت سے زیادہ ہوگی۔‘
کیا تیل کا مصنوعی بحران پیدا کیا جا سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ڈیپوز کی اگر بات کی جائے تو وہاں پر مصنوعی بحران بہت کم دیکھنے کو ملا ہے لیکن ٹینکرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ایسا کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’بعض اوقات ٹنیکرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ہڑتال کا اعلان کیا جاتا ہے اور کراچی سے دیگر شہروں کو تیل کی مصنوعات کی رسد روک دی جاتی ہے جس سے ملک میں تیل کے بحران کا خدشہ پیدا ہوتا سکتا ہے۔ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض اوقات مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔‘
پیٹرول کی قیمت طے کرنے میں حکومت کا کردار
حفیظ اللہ سے جب پوچھا گیا کہ جب اوگرا قمیتوں کا تعین کرتا ہے تو کیا حکومت کو انہیں کم کرنے کا اختیار ہے، تو انہوں نے بتایا کہ حکومت قیمتوں میں کمی نہیں کر سکتی جب تک اوگرا کی جانب سے سفارش نہیں کی جاتی۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ طریقہ کار میں پیٹرولیم ڈولپمنٹ لیوی، جس کو سادہ لفظوں میں پیٹرولیم ٹیکس بھی کہا جا سکتا ہے، میں ایک مارجن رکھا گیا ہے اور اسی کے حساب سے حکومت اسی ٹیکس کو کم اور زیادہ کر سکتی ہے جس سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں حکومت کی جانب سے کمی ہو سکتی ہیں۔