لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بلند شرح اموات، عملے میں بھی کرونا، وجہ کیا؟

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈائریکٹر خالد مسعود کے مطابق، 18 مارچ سے لے کر اب تک  ان کے ہسپتال میں مرنے والوں کی تعداد 60 سے تجاوز کر گئی ہے۔ جن میں تین مریض کل  ایک رات میں ہی  چل بسے ہیں۔

(ٹوئٹر)

خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ میں کرونا وائرس کے نتیجے میں 60 سے زائد اموات واقع ہونے کے بعد اس ہسپتال کی شرح اموات باقی ہسپتالوں کی نسبت بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ جب کہ اس ہسپتال میں طبی عملے کے 7 افراد خود بھی اس وائرس کا شکار ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب ایل آر ایچ (لیڈی ریدنگ ہسپتال ) کے بعض ڈاکٹر شکایت کرتے آرہے ہیں کہ انہیں حفاظتی کٹس نہیں دی جا رہی ہیں حالانکہ ان کے مطابق  انہیں روزانہ مریضوں کا معائنہ اس حال میں کرنا پڑ رہا ہے کہ انہیں مریض کے پازیٹیو یا نیگیٹیو ہونے کا کوئی علم نہیں ہوتا۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈائریکٹر خالد مسعود کے مطابق، 18 مارچ سے لے کر اب تک  ان کے ہسپتال میں مرنے والوں کی تعداد 60 سے تجاوز کر گئی ہے۔ جن میں تین مریض کل  ایک رات میں ہی  چل بسے ہیں۔

صرف پچھلے ہفتے جب یہ تعداد 30 سے زیادہ ہو گئی تھی تو اس کو بلند ترین شرح قرار دیتے ہوئے اس کی وجوہات سے متعلق ہر طرف سوالات اٹھنے لگے۔ جن کے نتیجے میں بعض مقامی اخباروں کے مطابق ایل آر ایچ کےمیڈیکل ڈائریکٹر  نے  ڈین سمیت  ہسپتال کے دیگر مختلف شعبوں کے سربراہان سے وضاحت طلب کرکے رپورٹ بنانے کی تجویز دی تاکہ وجوہات کا تعین کیا جا سکے۔

یہی وجوہات جاننے کے لیے اور ایل آر ایچ کے ناراض ڈاکٹروں کی شکایات کے حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے  لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈائریکٹر  خالد مسعود سےرابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ  'ڈیڑھ مہینے پہلے جب یہ وبا پاکستان میں داخل ہوئی تو ایل آر ایچ کی  صوبائی حکومت کے ساتھ تفصیلی بات چیت ہوئی ۔

ایل آر ایچ نے باہمی مفاہمت کے نتیجے میں صوبے بھر سے صرف ان مریضوں کو ایڈمٹ کرنے کا ذمہ لیا جنہیں آئی سی یو اور  ایچ ڈی یو کی ضرورت ہوگی۔ (آئی سی یو یعنی انٹینیو کئیر یونٹ اور ایچ ڈی یو کا مطلب ہائی ڈیپینڈنسی یونٹ ہے۔ دونوں قسم کے مریضوں کو آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے۔)

اب  اموات کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس دور دراز سے ایسی ایمبولینس میں مریض لائے جاتے ہیں جس میں آکسیجن وغیرہ کی سہولت نہیں ہوتی۔ دو، تین گھنٹے ان کے پشاور پہنچنے میں ضائع ہو جاتے ہیں اور ایل آر ایچ پہنچ کر وہ  دم توڑ دیتے ہیں۔ اس طرح یہ کیس لیڈی ریڈنگ ہسپتال  کے کھاتے میں درج ہوجاتا ہے۔‘

ڈائریکٹر ایل آر ایچ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ  حیات اباد میڈیکل کمپلکس (ایچ ایم سی) اور خیبر  ٹیچنگ ہسپتال (کے ٹی ایچ) میں بھی سیریس مریضوں کو داخل کیا جانے لگا ہے۔ تاہم وہ صرف اپنے آس پاس کے علاقے کے مریضوں کو ہی لیتے ہیں۔ جب کہ ایل آر ایچ اس بات کا پابند ہے کہ وہ تمام صوبے سے سیریس مریضوں کو داخلہ دےگا۔

خالد مسعود نے بتایا کہ ایل آر ایچ میں مرنے والوں میں سے زیادہ لوگوں کی عمریں 50 یا اس سے زائد تھیں۔ اور جن کو پہلے سے ہی مختلف قسم کی بیماریوں نے جکڑا ہوا تھا۔

'شروع میں 10 سے 12 اموات تین سے چار ہفتوں میں ہورہی تھیں۔ پچھلے ہفتے کے آخر تک یہ تعداد 40 سے بڑھ گئی ۔ اور اس ہفتے میں یہ تعداد 60 سے زائد ہوگئی ہے۔ صرف آج میرے پاس 47  مریضوں کے ایڈمشن ہوئے ہیں۔ خود ہمارے اپنے 7  ڈاکٹر اور پیرامیڈیکس کے ٹیسٹ پازیٹیو آگئے ہیں۔‘

اس نکتے پر ہم نے فوراً  مسعود صاحب سے سوال کیا کہ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ ان کے بعض ڈاکٹر حضرات کے مطابق انہیں حفاظتی کٹس نہیں دی جا رہی ہیں؟ 

جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کا ہسپتال اس وقت ان تمام  جگہوں پر ماسکس اور کٹس پہنچا رہا ہے جہاں اس کی ضرورت ہے۔

’اب دیکھیں ناں ، این 95 ماسک تو ہر کوئی مانگ رہا ہے۔ لیکن میرے ہسپتال کے اصولوں  کے مطابق مجھے حفاظتی سازو سامان صرف آئی سی یو، ایچ ڈی یو اور ایمرجنسی پہنچانا ہے۔کیونکہ یہ وہ جگہیں ہیں  جہاں ڈاکٹروں کا کرونا کے مریضوں کے ساتھ براہ راست رابطہ رہتا ہے۔ باقی ہسپتال والوں کو عام دستانے اور ماسک پہننے ہوں گے۔‘

ڈائریکٹر ایل آر ایچ کے اس جواب پر انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے دوبارہ پوچھا کہ ایل آر ایچ کے ایمرجنسی میں ڈیوٹی دینے والے ایک دو ڈاکٹروں نے بھی حفاظتی کٹس نہ ملنے کی شکایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے ڈیڑھ مہینے سے وہ خود ہی پی پی ایز خریدتے آرہے ہیں۔ اور اب تک ان کا ہزاروں میں خرچہ ہوا ہے۔ جب کہ ان کی تنخواہ بھی ان کے مطابق اتنی نہیں ہے۔

‘ان سے پوچھیں کہ انہیں کتنے دن پی پی ای نہیں ملے؟ اس طرح تو کئی الزامات لگائے جا سکتے ہیں۔ مجھےآپ  ان ڈاکٹروں کے نام بتائیں میں وعدہ کرتاہوں کہ ان  کے ایمرجنسی میں ڈیوٹی کے اوقات کار سمیت یہ بھی پتہ کروا کے دے دوں گا کہ انہیں کب اور کیوں حفاظتی کٹس نہیں ملے۔ہم سے آج کل وہ ڈاکٹر بھی این 95  کا مطالبہ کر رہے ہیں جو ڈیوٹی پر موجود نہیں ہوتے۔لیکن  ہسپتال کی ایس او پی کے مطابق ہم سب کو پی پی ای نہیں دے سکتے ۔ میں خود عام ماسک اور دستانوں میں ہسپتال میں کام کرتا ہوں۔حالانکہ میں بھی صبح شام اپنے سٹاف سے ملتا ہوں۔  ‘

ڈائریکٹر لیڈی ریڈنگ ہسپتال خالد مسعود نے بتایا کہ اس وقت ان کے ہسپتال کے پاس ساڑھے 4 ہزار طبی عملہ ہے۔ جن میں 2 ہزار بیک اپ کے لیے رکھا ہوا ہے جب کہ باقی کام میں مصروف ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حفاظتی کٹس کم تو نہیں پڑ گئی ہیں، اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے کیسز میں اضافہ ہوتا جارہا ہے انہیں پی پی ایز  کی ضرورت بھی اس حساب سے زیادہ پڑنے لگی ہے۔

'لیکن فی الحال کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔حکومت ، این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے سب حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔اس کے علاوہ چائنہ سے مزید  کئی ٹن کٹس پاکستان پہنچ گئی ہیں۔ جو ہمیں بھی بذریعہ ٹی سی ایس  پہنچا دی جائیں گی۔'

اس وقت لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ایک شفٹ میں 102 لوگ طبی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔جن کو روزانہ 306 پی پی ایز دیے جارہے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ اگر ایک ڈاکٹر کو حکومت کی جانب سے ایک این 95 ماسک مل رہاہے اور وہ دوسرا چاہتا ہے تو اس کا خرچہ وہ خود اٹھائے گا۔‘

صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال ایل آر ایچ کے ڈائریکٹر نے کرونا وائرس سے متاثرہ افراد اور شرح اموات میں اضافے کی ایک وجہ عوام کی غیر سنجیدگی بھی  بتائی۔ انہوں نے عوام کے نام ایک پیغام میں بتایا کہ اگر عوام چاہتی ہے کہ ملک سے کرونا وائرس کا مکمل صفایا ہو توصرف 18 دن گھر سے ایک منٹ کے لیے بھی نہ نکلیں۔ کسی کے افطار ڈنر، شادی یا ماتم پر نہ جائیں ۔کیونکہ ناراض ہوجانے والوں کو بعد میں منانا آسان ہے۔ لیکن اگر ایک دفعہ کرونا وائرس کا شکار ہوئے تو جان لیا جائے کہ یہ وائرس لاعلاج ہے۔جب کہ  ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت یونٹوں اور وارڈز میں جگہ بھی ختم ہورہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان