بدھ کو امریکہ کے متعدی امراض کے قومی ادارے کے سربراہ ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے ریمڈیسی ویر نامی ایک دوا کے نتائج پیش کیے، جس کی وجہ سے ہسپتال میں داخل مریضوں کا قیام مختصر ہو جاتا ہے، البتہ موت کی شرح پر اس کا اثر معمولی ہے۔
تاہم بدقسمتی سے انجیکشن کے ذریعے دی جانے والی یہ دوا پاکستان میں دستیاب نہیں ہے۔ اسے امریکی کمپنی گلیڈ تیار کرتی ہے، یہ فی الحال یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا یہ کمپنی اتنے بڑے پیمانے پر اسے تیار کرنے کے قابل ہے یا نہیں کہ اسے دنیا بھر میں کرونا کے لاکھوں مریضوں کے لیے دستیاب کرایا جا سکے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کو بےتابی سے ویکسین کا انتظار ہے، یا اگر ویکسین آنے میں دیر لگ رہی ہے تو ایسی دوا ہی متعارف ہو جائے جو اس بیماری کا زور توڑ دے۔
بظاہر ریمڈیسی ویر ایسی جادوئی دوا نہیں لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کی رو سے یہ خبر آنے کے بعد امریکی سٹاک مارکیٹ میں نمایاں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
ڈاکٹر اینتھونی فاؤچی نے بتایا ہے کہ اس دوا کی وجہ سے کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں میں صحت یاب ہونے کی وقت 31 فیصد کم ہو گیا۔ یعنی جن مریضوں کو یہ دوا دی گئی تھی، وہ 11 دن میں صحت یاب ہو گئے، جب کہ وہ مریض جنہیں نقلی دوا (placeob) دی گئی، انہیں ٹھیک ہونے میں 15 دن لگے۔
بظاہر تو یہ فرق اتنا زیادہ نہیں، لیکن یہ مریضوں کے بوجھ تلے دنیا بھر کے ہسپتالوں کے لیے اچھی خبر ہے کیوں کہ اس طرح انہیں زیادہ مریضوں کا علاج کرنے کا موقع مل جائے گا۔ یہ دوا صرف شدید بیمار مریضوں کے لیے ہے جو ہسپتال میں داخل ہیں، اور کرونا کا شکار اکثریتی مریضوں کے لیے نہیں ہے۔
ڈاکٹر فاؤچی نے مزید کہا کہ ریمڈیسی ویر کا شرحِ اموات کا کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا، جو 11 فیصد سے کم ہو کر آٹھ فیصد تک آ گئیں۔ یہ شماریاتی اعتبار سے قابلِ لحاظ (significant) نہیں ہے۔
ڈاکٹر فاؤچی نے کہا: ’ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ ریمڈیسی ویر صحت یابی کے وقت کو کم کرنے میں واضح، اہم اور مثبت اثر ڈالتی ہے۔ اگرچہ 31 فیصد بہتری 100 فیصد اثر سے کم ہے، لیکن یہ اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کرونا وائرس پر ایسی ادویات کا اثر ہوتا ہے جو وائرس کی تقسیم کے عمل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
واضح رہے کہ ریمڈیسی ویر ابتدائی طور پر ایبولا کے خلاف بنائی گئی تھی۔
ریمڈیسی ویر کام کیسے کرتی ہے؟
اسے سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ کرونا وائرس جسم کے خلیوں کو کس طرح نشانہ بناتا ہے۔
بےحد سادہ الفاظ میں جب وائرس انسانی خلیے کے اندر داخل ہو جاتا ہے تو پہلا کام یہ کرتا ہے کہ خلیے کے اندر موجود مشینری کو ہائی جیک کر لیتا ہے۔ چونکہ وائرس خود اپنی تولید نہیں کر سکتا، یا دوسرے الفاظ میں اپنی نسل خود آگے نہیں بڑھا سکتا، اس لیے یہ خود اپنی افزائش کے لیے انسانی خلیے کو استعمال کرتا ہے اور خلیے کے اندر موجود خام مال کو بروئے کار لاتا ہے۔
ایک ایک خلیہ ہزاروں وائرس تیار کرتا ہے جو باہر نکل کر دوسرے خلیے کو متاثر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
اسی خام مال میں ایک مادہ ایڈینوسین کہلاتا ہے جو وائرس کے لیے ناگزیر ہے۔
اب آ جاتے ہیں ریمڈیسی ویر پر۔ جب رگ کے ٹیکے کے ذریعے یہ دوا دی جاتی ہے تو یہ بھی خلیوں کے اندر پہنچ جاتا ہے جہاں وائرس کی بڑے پیمانے پر تیاری جاری ہوتی ہے۔
ریمڈیسی ویر کی ساخت ایڈینوسین سے ملتی جلتی ہے، اس لیے جب جسم کی مشینری کرونا وائرس کی کاپیاں بناتی ہے تو غلطی سے ریمڈیسی ویر کو ایڈینوسین سمجھ کر اسے نئے وائرس کی تیاری میں استعمال کر لیتی ہے۔ اس ’جعلی‘ ایڈینوسین سے تیار کردہ وائرس ناکارہ اور ناپائیدار ہوتا ہے اور مزید خلیوں کو متاثر کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
جیسا کہ ڈاکٹر فاوچی نے کہا، یہ دوا سو فیصد موثر نہیں ہے، لیکن انہی خطوط پر کام کرتے ہوئے ایسی ادویات تیار کی جا سکتی ہیں جو وائرس کو مکمل طور پر نہیں تو بڑی حد تک ناکارہ کر دیں۔
اس کے علاوہ ریمڈیسی ویر کے ساتھ ملا کر دوسری ادویات بھی دی جا سکتی ہیں جو کسی اور پہلو سے وائرس کو نشانہ بنائیں اور دونوں کا مشترکہ اثر کہیں زیادہ ہو۔ ایڈز کے وائرس کے خلاف یہی حکمتِ عملی استعمال کی گئی تھی۔
سو قصہ مختصر یہ کہ ریمڈیسی ویر کوئی جادو کی پڑیا نہیں ہے کہ وائرس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے، لیکن ایک تو یہ ہسپتالوں پر دباؤ کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے، دوسرے اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ اس کو بنیاد بنا کر کرونا وائرس کے خلاف زیادہ کارگر ادویات تیار کی جا سکتی ہیں۔