’دوسروں سے مختلف ہونے کے باعث مجھے زندگی میں بہت زیادہ منفی معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ دس سال قبل میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئی اور انجینیئرنگ کی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔‘
پنجاب پولیس فورس کا حصہ بننے والی پہلی خواجہ سرا ریم شریف نے راولپنڈی میں خواتین پولیس سٹیشن میں پہلی وکٹم سپورٹ آفیسر اینڈ فیسیلیٹیٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ریم شریف نے بتایا: ’زندگی میں کئی تلخ تجربات نے سکھایا کہ مجھے اپنی جیسی مخلوق خدا کی خدمت کرنی چاہیے۔‘
پنجاب پولیس میں شمولیت سے قبل فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی ریم شریف ایک نجی ادارے سے منسلک تھیں جہاں وہ خواجہ سراؤں کو معاشرے میں ان کے حقوق دلانے کی جدوجہد کر رہی تھیں۔
انہوں نے کہا: ’میرے خیال میں پولیس فورس میں رہ کر میں خواجہ سرا افراد کی زیادہ بہتر طریقے سے مدد کر سکتی ہوں۔‘
پنجاب پولیس نے راولپنڈی میں خواتین کے پولیس سٹیشن میں خواجہ سراؤں کے لیے ایک خصوصی ڈیسک قائم کیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ تھانے میں آنے والے خواجہ سراؤں کی ان کے مسائل سے متعلق رہنمائی کی جائے اور ان کو حل کیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راولپنڈی کی اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) بینش عزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خواجہ سراؤں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے خواتین کے پولیس سٹیشن میں خدمت مرکز قائم کیا گیا ہے، جہاں ایک ٹرانس جینڈر ڈیسک موجود ہے جس کی انچارج ریم شریف ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ڈیسک خواتین پولیس سٹیشن میں پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر قائم کیا گیا ہے، جسے مراحل میں پنجاب کے ہر تھانے کا حصہ بنایا جائے گا۔
اپنے کام کی نوعیت کا ذکر کرتے ہوئے ریم شریف کا کہنا تھا کہ اکثر خواجہ سرا چھوٹے موٹے کاموں کے لیے تھانے آتے ہیں اور رہنمائی نہ ہونے کے باعث انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق ملک میں خواجہ سراؤں کی تعداد دس ہزار سے کچھ زیادہ ہے، جبکہ غیر سرکاری چیریٹی ادارے ٹرانز ایکشن گروپ کے مطابق یہ تعداد پانچ لاکھ ہے۔
خواجہ سراؤں اور ان کے حقوق پر کام کرنے والوں کے لیے بڑی جیت سال 2009 میں ہوئی، جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے خواجہ سراؤں کو ملک کے برابر کے شہری قرار دیتے ہوئے حکم جاری کیا کہ انہیں بھی شناختی کارڈ بنوانے کا حق دیا جائے۔ اس کے علاوہ 2018 میں قومی اسمبلی نے بھی خواجہ سراؤں کے حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کا قانون پاس کیا۔ جس کے تحت انہیں سرکاری دستاویزات جیسے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر اپنی صنف کا انتخاب کرنے کا حق ہے جبکہ ان کے خلاف ملازمت میں صنفی رویوں کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا۔
’الیکٹریکل انجینیئر نہ بن سکی‘
سپریم کورٹ کے 2009 کے تاریخی حکم آنے کا وہی زمانہ تھا، جب ریم شریف لاہور کی ایک یونیورسٹی میں الیکٹریکل انجینئیرنگ کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔
سپریم کورٹ نے تو خواجہ سراؤں کو برابر کے شہری کے حقوق دے دیے، لیکن ریم شریف کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبہ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔
وہ اب بھی یاد کرتی ہیں: ’میں نے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی تھی، لیکن یونیورسٹی کے لڑکے میرے اوپر ہنسا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ لڑکیاں بھی مجھے ڈسکس کر کے محظوظ ہوتی تھیں۔‘
ماضی کو یاد کرتے ہوئے ریم شریف کی آواز کچھ دیر کے لیے بھاری ہوئی۔ ’میری زندگی کا سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ میں الیکٹریکل انجینئیر نہ بن سکی۔ مجھے تعلیم کا سلسلہ انہی منفی معاشرتی رویوں کی وجہ سے ادھورا چھوڑنا پڑا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے باہر کے حالات بھی کوئی بہت بہتر نہیں تھے کیونکہ ان کے رشتہ داروں کا رویہ بھی تقریباً ویسا ہی تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہ سب سہہ کر وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئیں اور مجبوراً تعلیم کا سلسلہ ادھورا چھوڑنا پڑا۔
کافی عرصہ تک ذہنی دباؤ کا شکار رہنے کے بعد ریم شریف نے اپنی قوت ارادی سے کام لیتے ہوئے زندگی کی طرف واپس آنے کا فیصلہ کیا۔
’میرا جذبہ اور مقصد اتنے دیوہیکل تھے کہ میں نے ذہنی دباؤ کو شکست دے دی، اس پر قابو پایا اور آج میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘
اس کے بعد ریم شریف نے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کیا اور نجی طور پر بی اے کرنے کے بعد سرگودھا یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ایم اے کیا۔
’قابل قبول ٹرانس جینڈر‘
ریم شریف بہت خوشی کے ساتھ کہتی ہیں: ’میں ایک قابل قبول خاتون ٹرانس جینڈر ہوں اور مجھے اس پر بڑا فخر ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے گھر والوں نے ان کی اس مخصوص حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے، تاہم ان کے یہاں تک پہنچنے کا سفر آسان نہیں تھا۔
ریم بتاتی ہیں: ’میں نے اپنے گھر والوں کو بحث، قانون، اخلاقیات اور مذہب کے ذریعے سمجھایا کہ میں بھی ان کی طرح ایک انسان ہوں۔ بس تھوڑی سی مختلف ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ وہ مان گئے۔‘
ریم شریف اپنے بھائی کے خاندان کے ساتھ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کی دو بہنیں اور دو بھائی شادی شدہ ہیں۔