صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں ’غیرت کے نام پر دو لڑکیوں کو فائرنگ سے قتل کرنے کے معاملے میں پاکستان میں شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق دونوں لڑکیوں کو ایک لڑکے کے ساتھ بوس و کنار کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد قتل کیا گیا۔
تقریباً 52 سیکنڈز پر مشتمل ویڈیو میں ایک نوجوان لڑکے کے دائیں بائیں تین سیاہ برقعوں میں لڑکیاں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ لڑکا باتوں باتوں میں دو لڑکیوں سے بوس وکنار شروع کر دیتا ہے جبکہ تیسری لڑکی بھاگ جاتی ہے۔
ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ (ڈبلیو ڈی ایف) نامی تنظیم نے اتوار کو ایک پریس ریلیز میں اس واقعے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے قتل ہونے والی لڑکیوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈبلیو ڈی ایف کی عہدے داروں عالیہ بخشال، عصمت شاہ جہاں، ممتاز تاجک اور نرگس خٹک نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ حکمران طبقہ کتنی آسانی سے خواتین کے خلاف ہونے والےایسے پر تشدد واقعات کی بڑی تعداد کو نظر انداز کر دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کو قتل کرنے پر اکسانے والے علاقے کے طاقت ور لوگوں کو حکومتی پشت پناہی حاصل ہے۔ ڈبلیو ڈی ایف نے قاتلوں، قتل پر اکسانے والوں اور ویڈیو لیک کرنے والے شخص کو گرفتار کر کے سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
تاہم اب پولیس کی جانب سے بیان سامنے آیا ہے کہ لڑکیوں کے قتل کے الزام میں دو افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق دونوں افراد نے لڑکیوں کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے۔ پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں ایک ملزم ایک لڑکی کا والد ہے جب کہ دوسری لڑکی کے بھائی کو گرفتار کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے پولیس کے ایک سینیئر افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان لڑکیوں کا تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا اور وہ کچھ عرصہ قبل وزیرستان کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے شمالی وزیرستان کے علاقے شام پلین گڑیوم منتقل ہوگئی تھیں۔ افسر کے مطابق شام پلین گڑیوم کے 'ع' نامی لڑکے کے ساتھ ان لڑکیوں کی جان پہچان بنی تھی۔ ویڈیو میں یہ نوجوان ان لڑکیوں سے پشتو میں پوچھتا ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے آئی ہیں، جس پر ایک لڑکی نے جواب دیا کہ وہ ایسے ہی آئی ہیں۔
ویڈیو میں لڑکا کہہ رہا ہے کہ کیا شام کے وقت وہ دوبارہ آئیں گی، تو ایک لڑکی کہتی ہے کہ یہ جگہ مناسب نہیں اور دور سے دوسرے لوگ بھی دیکھ رہے ہیں۔ ویڈیو سے واضح نہیں کہ لڑکے اور لڑکیوں کا آپس میں کیا تعلق تھا۔
واقعے کے خلاف رزمک تھانے میں ایس ایچ او لوئی دارز خان نے ایف آر درج کروائی ہے۔ ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ شام پلین کے علاقے میں 18 اور 16 سالہ لڑکیوں کو ان کے چچا زاد بھائی نے فائرنگ کر کے مبینہ طور پر ’غیرت کے نام‘پر قتل کر دیا۔ قتل ہونے والی دونوں لڑکیاں آپس میں چچا زاد بہنیں بتائی جاتی ہیں۔
ایف آئی آر میں مزید بتایا گیا کہ واقعے کے بعد دونوں لڑکیوں کا خاندان ان کی لاشیں لے کر واپس جنوبی وزیرستان چلے گئے۔
ایف آئی ار کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والے نوجوان کی تلاش جاری ہے مگر خیال ہے کہ وہ علاقہ چھوڑ کر کہیں چھپ گیا ہے یا دوسرے شہر چلا گیا ہے۔
دوسری جانب جنوبی وزیرستان کی پولیس نے بتایا کہ دونوں لڑکیوں کی لاشوں کو رات کے وقت ان کے خاندان والوں نے ایک نامعلوم مقام پر دفنا دیا، البتہ پولیس نے قبروں اور ملزم کی تلاش شروع کر دی ہے مگر ابھی تک قبروں کا سراغ نہیں ملا اور نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔
سابق قبائلی علاقوں میں ،جو اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں، اس سے پہلے بھی ’غیرت کے نام‘ پر اس قسم کے واقعات ہوتے تھے، مگر اس وقت کے ایف سی آر قانون کے تحت قتل ہونے والوں کی رپورٹ سامنے نہیں آتی تھی۔
ماضی میں ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر کے اندر ’غیرت کے نام‘ پر قتل میں ملوث ملزم کو گرفتار نہیں کیاگیا۔
خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد پہلی بار ’غیرت کے نام‘ پر قتل کے واقعات کے ایف آئی آر درج ہونا شروع ہوئی ہے۔ مگر آج بھی ایک خوف موجود ہے اور اس طرح کے واقعات کوکوئی رپورٹ نہیں کرتا۔
سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی پختونخوا کے صدر ایمل ولی خان نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ شمالی وزیرستان میں نوجوان لڑکیوں کے قتل سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے میں کتنی شدت پسندی ہے اور یہاں قانون کا کتنا راج ہے۔ انہوں نے واقعے کے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہر شہری کو تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔' غیرت کے نام پر' قتل ختم ہونا چاہیے اور واقعے میں ملوث لوگوں کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔
Killing teenager girls in North Waziristan shows the kind of extremism and no rule of law in the area. We strongly condemn the killing, State must provide security to every person. The honor killing need be ended and the culprits of this case must be apprehended at earliest.
— Aimal Wali Khan (@AimalWali) May 16, 2020
حرمت علی شاہ نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا ' وزیرستان کی لڑکیوں کو انصاف ملنا چاہیے۔'
The Waziristan girls (whose names we still don't know even after filing of an FIR) must get justice. In Pakistan all politics is gendered and guided by notions and values of patriarchy, thus incomplete and imperfect. The calls to democracy and superiority of constitution also
— Hurmat Ali Shah (@iconcoclastary) May 17, 2020
ملالہ یوسف زئی کے والد ضیا الدین یوسف زئی نے واقعے پر شدید دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مذمت کی اور کہا کہ قاتلوں کو قانون کے تحت سزا ضرور ملنی چاہیے۔' شرم آنی چاہیے ان مردوں پر جو اس غیر انسانی روایت پر خاموشی اختیار کر کے یا پھر اس کا دفاع کرتے ہیں۔'
I’m shocked. I strongly condemn the killing of the two teenage girls in the name of honour. The criminal (s) must be punished according to the rule of law.
— Ziauddin Yousafzai (@ZiauddinY) May 17, 2020
Shame on all those men who are silent or apologetic to protect the inhuman patriarchal norms. https://t.co/84PJ0JZVBL
لکھاری اور اداکارہ میرا سیٹھی نے کہا کہ 'وقت آ گیا ہے کہ ہم 'غیرت کے نام پر' قتل کے جملے پر دوبارہ غور کریں۔ اس کا صاف مطلب قتل ہے۔ ہم اسے 'غیرت کے نام پر' قتل کہہ کر بار بار ثابت کرتے ہیں کہ یہ جرم مجرم کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ناکہ مظلوم کی نظر سے۔'
Reading awful reports of two teenage girls killed in Waziristan
— Mira Sethi (@sethimirajee) May 17, 2020
Time to rethink the term ‘honor killing’
for what it actually is: murder
By calling it ‘honor killing’ we are constantly showing the crime through the eyes of the perpetrator, never the victim