دوحہ میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر بھارت افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے تو وہ اس کے ساتھ مذاکرات کر سکتے ہیں۔
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ اور چیف مذاکرات کار شیر محمد عباس ستانکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک آڈیو پیغام میں کہا کہ 'ان کے سیاسی دفتر کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک، خطے اور دنیا بھر کی حکومتیں جنگ سے تباہ حال ملک میں جنگ کے خاتمے، معقول امن معاہدے اور غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد تعمیر نو میں مثبت اقدامات اٹھائیں۔'
افغان طالبان کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ اور پاکستان دونوں نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ قیام امن کے لیے طالبان سے بات کرے۔
شیر محمد عباس ستانکزئی کا کہنا تھا کہ بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔ ’اگر بھارت کی حکومت اپنی موجودہ پالیسی پر نظرثانی کرے اور اگر وہ افغانستان میں قیام امن، صلح اور تعمیر نو میں فعال کردار چاہتی ہے تو طالبان اس کا خیرمقدم کرے گا اور اسے مثبت نظر سے دیکھے گا۔ ہمارا سیاسی دفتر اس مقصد کے لیے حاضر ہے کہ ان (بھارت) کے ساتھ اس پر اتفاق رائے پیدا کرے۔‘
شیر محمد عباس ستانکزئی کا پشتو میں بیان
بھارتی اخبار دی ہندو کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ بھارت کے لیے طالبان سے بات کرنا 'مناسب' ہو گا۔
دوسری جانب برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے بھی امریکہ کے لیے پاکستانی سفیر اسد خان کے حوالے سے کہا کہ تھا کہ بھارت کو افغانستان میں امن کے فروغ کے لیے طالبان سے بات چیت کرنی چاہیے۔ لیکن اب پاکستانی وزارت خارجہ نے اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ دونوں کو بات چیت کرنی چاہیے بلکہ یہ بھارت کا فیصلہ ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔
تاہم نئی دہلی نے ان تجاویز اور اس پیشکش پر اب تک کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔ دی ہندو نے ایک سرکاری اہلکار کے حوالے سے لکھا کہ بھارت کی افغانستان سے متعلق پالیسی ان کی افغان عوام کے ساتھ روایتی تعلقات کے تناظر میں چلتی رہے گی۔
سینیئر صحافی سمیع یوسفزئی کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے بھارت کو اس موقع پر پیشکش کی ایک بڑی وجہ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وہ جعلی خبر بھی تھی جس میں ان کی جانب سے بھارت میں ’جہاد‘ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ پاکستان کے بعض نجی چینلوں نے اس خبر کو نشر بھی کیا تھا تاہم طالبان نے اس کی سختی سے تردید کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان کے ترجمان کا وضاحت میں کہنا تھا کہ ان کی پالیسی کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کی ہرگز اجازت نہیں دیتی ہے۔ ’بعض شرپسند عناصر جو اس خطے میں صلح اور امن نہیں چاہتے اور جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں وہ اس قسم کی افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ ہم انہیں سختی سے مسترد کرتے ہیں۔‘
افغان طالبان اور امریکی و پاکستانی سفرا کے یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب افغانستان میں حالیہ دنوں میں ہونے والے پر تشدد حملوں کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے مستقبل پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
پاکستان افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کا مخالف رہا ہے۔ پاکستانی سفیر اسد خان نے روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ اس مشورے کا کیا جواب دیتا ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ بھارت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو کیسے دیکھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا ’اگر بھارت محسوس کرتا ہے کہ طالبان سے رابطہ امن عمل کے لیے مدد گار ہو سکتا ہے تو ہم یہ معاملہ ان پر چھوڑتے ہیں۔ لیکن انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں اس کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے۔‘
گو کہ انہوں نے کھل کر یہ نہیں کہا کہ پاکستان کسی ایسے فیصلے کی حمایت کرتا ہے، لیکن پاکستان کی جانب سے بغیر کسی شرط کے بھارت کے ممکنہ کردار کی بات کرنے کو کابل میں امن مذاکرات کے حوالے سے پائی جانے والی بین الاقوامی تشویش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
افغانستان میں گذشتہ ہفتے دو حملوں نے امن عمل کو مزید مشکلات سے دو چار کر دیا ہے۔ کابل کے ایک زچہ و بچہ ہسپتال میں حملے میں 24 افراد ہلاک ہوئے، جن میں دو نو زائیدہ بچے بھی تھے جب کہ مشرقی افغانستان میں ایک جنازے پر خود کش حملے میں 32 افراد ہلاک ہوئے۔
امریکہ نے ان حملوں کا الزام داعش پر عائد کیا ہے جبکہ افغان صدر اشرف غنی نے افغان فورسز کو طالبان کے خلاف دفاعی کے بجائے 'جارحانہ حکمت عملی' اپنانے پر زور دیا ہے۔