اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں

کرونائی دور میں عید منانا بھی عجیب ہو گیا ہے کہ ایک دوسرے سے ملنے سے ہی ڈر لگنے لگا ہے۔

(روئٹرز)

تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی

ایک فلسفی نے 'مسرت' اور 'نشاط' پر بہت اچھی کتاب لکھی ہے۔ ان کے مطابق مسرت اور نشاط میں فرق وقت کا ہوتا ہے۔ جو خوشی مختصر ہو اسے 'نشاط' کہا گیا اور جس خوشی کا دورانیہ طویل اور دائمی ہو وہ 'مسرت' کہلاتی ہے۔ دونوں بظاہر اندورنی کیفیات ہیں لیکن ان کا تعلق بیرون سے بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'نشاط' کا تعلق بیرون سے زیادہ ہے اس لیے مختصر ہے جبکہ مسرت کا تعلق اندرون سے ہوتا ہے تو اسی وجہ سے دائمی یا طویل ہو سکتا ہے۔ جس طرح کوئی صدمہ عارضی ہوتا ہے اسی طرح نشاط بھی عارضی ہے۔

مسرت کیوں ختم ہوجاتی ہے یا یہ نشاط میں کیوں تبدیل ہو جاتی ہے اس کی کئی وجوہات ہیں۔ موت کا خوف، مقصد کا نہ ہونا، دوسروں سے موازنہ کرنا یا مقابلہ کرنا، اپنی رائے کے اظہار سے ڈرنا، خدا سے زیادہ خدا کے بندوں کا خوف، مسلسل مستقبل میں یا ماضی میں رہنا، اپنی ذات کو کوسنا، بہت اونچا سوچنا، اپنی کامیابیوں سے صرف نظر کرنا، طاقت کے حصول میں رہنا وغیرہ چند بنیادی وجوہات ہیں۔ اس کے علاوہ کسی فرد کا زمانہ یعنی جس دور میں وہ رہتا ہوں اور جن چیزوں سے اس کی روزانہ کی بنیاد پر مڈبھیڑ ہوں اور اسی طرح جس کلچر اور روایات میں وہ رہتا ہوں یہ سب ان اندرونی کیفیات کو جنم دینے میں بہت اہم ہوتے ہیں۔

جو وجوہات شخصی ہیں ان پر قابو پانے کے لیے بڑے ریاض کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب اس ذہنی، جذباتی، نفسیاتی اور عقلی مشقت سے کوئی گزر جائے تو اس کے لیے بیرونی عوامل سے نمٹنا بھی آسان ہوجاتا ہے۔ یہ مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں۔

ہمارا کلچر ایک آدم خور کلچر ہے۔ آپ چونک گئے ہوں گے کہ آدم خور کلچر میں تو انسان انسان کو کھا جاتا ہے۔ میں گوشت پوست کی بات نہیں کر رہا مگر یہاں ہم واقعی ایک دوسرے کی شخصیت کو کھا جاتے ہیں یا پھر چبا ڈالتے ہیں۔ ہمارا کلچر انتہا درجے کا ججمنٹل ہے (اس کا اردو ترجمہ کیا کروں مگر مراد یہ ہے کہ بس لوگ ایک دوسرے کی چال ڈھال، شکل صورت، اٹھنے بیٹھنے پر جاسوس کی طرح نظر رکھے ہوتے ہیں۔ ہر ایک خود کو مقدّس یا اعلیٰ سمجھ کر دوسروں کے کردار، اخلاق، سیرت، صورت پر کسی جج کی طرح فیصلہ صادر کرجاتا ہے اور پھر اس کو معاشرے میں پھیلاتا بھی ہے)۔

یہیں سے معاشرے میں بے جا غیرت، تعصب، بغض، دشمنیاں اور رقابتیں جنم لیتی ہیں اور یہی چیزیں شخصی و سماجی 'مسرت' کو تباہ کردیتی ہیں۔ یہ رویے کلچر، مذہب، معیشت اور سیاست کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ ایسے کسی معاشرے میں انسان کی شخصیت نکھرتی نہیں بلکہ بگڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بڑا دانشور، عالم، مفکر پیدا نہیں ہوسکتا کیوں کہ ہمیشہ خوف کی ایک فضا قائم رہتی ہے اور یہ بندے کی صلاحتیوں کو کھا جاتی ہے۔ اسی لیے یہ کلچر آدم خور ہے بلکہ اس سے بھی برا کہ اس طرح کی آدم خوری ہمیشہ پنہاں رہتی ہے۔ اب ایسی کسی فضا کا مقابلہ کوئی پیغامبر یا اعلیٰ راہنما ہی کرسکتا ہے۔ اسی لیے پیغامبر کو عظیم مقام حاصل ہے کیوں کہ اپنے کلچر اور روایات کا باغی ہوتا ہے۔

مسرت کی راہ میں حائل دوسری بڑی رکاوٹ انسان کی زندگی میں کسی 'مقصد' کا نہ ہونا ہے۔ مقصد کو عموماً بڑا مقصد لیا جاتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ دنیا کا نظام بدلنا مقصد ہے تو اپنی اولاد کی دیکھ بھال بھی بڑا مقصد ہے۔ مطلب مقصد ہونا چاہے۔ بڑے اور چھوٹے کے سابقے ضمنی ہیں۔ دنیا میں ہر انسان کا مقصد ہوتا ہے لیکن ہم اسی موازنے اور تقابلے میں پڑ کر اپنے ہی مقصد کو کمتر یا سرے سے مقصد ہی نہیں گردانتے۔ اسی وجہ سے اضطراب رہتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہی تقابلہ اور موازنہ ہی ہے کہ ہم ہمہ وقت نشاط چاہتے ہیں۔ جدیدیت کے موجودہ دور کو کسی فلسفی نے 'مائع جدیدیت' کہا ہے۔ مراد اس سے یہ کہ پانی کی طرح شکل بدلتے اور بہتے اس دور کے انسان کی کیفیت بھی مائع کی طرح ہے۔ پل میں کچھ تو پل میں کچھ ہے۔ پل پل اس اضطراب میں ہم مبتلا ہیں اور ہمہ وقت نشاط کی تلاش میں حالت، صورت، کیفیت اور ذہنیت بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار فیس بک پر اپنا سٹیٹس چیک کرنا یا نیوز فیڈ دیکھنا کہ کوئی نیا واقعہ یا پسند ناپسند کا شمار ہاتھ اجائے کہ مضطرب نفس مطمئن ہو۔ ستم ظریفی یہ کہ اسی سکون کی تلاش میں مزید مضطرب ہوجاتے ہیں۔

یہی جدیدت ہے کہ جس نے ہم سے ہمارے اپنے آبائی/مقامی خوشی کے مواقع کلونیئلزم کی وجہ سے چھین لیے ہیں۔ اس بلا نے صدیوں سے ہمیں گھیر لیا ہے۔ ہمارا اپنا کلچر تباہ کرکے ہم پہ اپنا کوئی کلچر ترقی، معیشت یا مذہب کی صورت میں تھوپ دیا ہے۔ ہمارا اپنا کوئی تہوار نہیں رہا۔ دوسرے تہواروں میں اپنا رنگ بھرا تو  وہ 'ان' کے نزدیک وحشی یا کفر ٹھرے۔

مضمون لمبا ہوتا گیا۔ مختصر کیے دیتا ہوں۔ اس کلونیئلزم (نوآبادیت) اور گلوبلائزیشن (عالم گیریت) نے ہم سے خوشیاں چھین لیں ہیں۔ مثال کے طور پر کرونا کوہی لیں۔ یہ گلوبلائزیشن کی پیداوار ہے۔ ایک ایسا دور آیا ہے کہ ہم اگر اس وبا سے بچنے کے احتیاطی تدابیر مانیں یا نہ مانیں خوف رہتا ہے۔ اگر ہم اس کو وبا نہ مان کر بھی ایک دوسرے سے ملنے کی کوشش کریں تو وہ مزا کہاں، وہ چاشنی کہاں وہ حدت کہاں!

اس وبا میں تو عید ایسی ہی ہوگئی کہ بقول شاعر۔

مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی
اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں

حل کیا ہے؟ میرے پاس نہیں۔ آپ کے اندر ہے حل۔ اپنی کامیابیوں کو گننا ہو گا۔ ہمیشہ خود کو کوسنا چھوڑنا ہے۔ اپنے لیے مقصد کا انتخاب کرنا ہے اور اسی کو پانے کی مسلسل کوشش۔ نتیجے سے بے پروا ہو کر اس مسلسل عمل سے مزا لینا سیکھنا ہے۔ دوسروں کو 'اپنی طرح' بنانے کی فکر اور کوشش چھوڑنی ہے۔ اپنی تقدیس اور غلاظت اپنے تک محدود رکھنی ہے۔ دوسروں پر نہیں ٹھوسنی۔ سوشل میڈیا کی بجائے پڑھنے میں زیادہ وقت گزارنا ہے۔ حال میں جینا ہے اور شعوری طور پر مستقبل کی تیاری کے عمل سے گزرنا ہے۔ دوسروں سے موازنہ اور تقابلہ کم سے کم کرنا ہے۔ دوسروں کو جج کرنا ضرور چھوڑنا ہے۔ نئی فکر سے گھبرانا نہیں۔ آدم خوری سے بچنا ہے۔ خوشی کے چھوٹے چھوٹے مواقع ڈھونڈنے ہیں اور ان سے مزا لینا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ