گزشتہ روز سے طیارہ حادثے کی تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے جہاز کے کاک پٹ وائس ریکارڈر کی تلاش جاری تھی۔ اس مقصد کے لیے کریش سائٹ پر موجود عمارتوں کی انسپیکشن کا کام تحقیقاتی ٹیم کے سپرد کیا گیا تھا۔
ٹیم نے جائے وقوعہ سے ہوائی جہاز ملبے کے بڑے حصے ہٹوانے کا کام شروع کردیا تھا اور پرواز کا ڈیٹا ریکارڈر ملنے کے باوجود ائیر بس اے 320 کے کاک پٹ وائس ریکارڈر کی تلاش جاری تھی۔
پی آئی اے کے ترجمان عبدللہ حفیظ خان کی جانب سے انڈپیڈنٹ اردو کو بتایا گیا کہ ’تحقیقاتی ٹیم نے آج صبح نئے سرے سے کاک پٹ وائس ریکارڈر کی تلاش کا کام شروع کیا تھا جس کے بعد ملبے کے نیچے دبا ہوا وائس ریکارڈر مل گیا ہے۔‘
پی آئی اے ترجمان کے مطابق کاک پٹ وائس ریکارڈر طیارہ حادثے کی تحقیقات میں انتہائی کلیدی کردار ادا کرے گا۔
یہ وائس ریکارڈر ائیرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹیگیشن بورڈ کے حوالے کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کاک پٹ وائس ریکارڈر اور فلائیٹ ڈیٹا ریکارڈر کو مجموعی طور پر بلیک باکس کہا جاتا ہے۔ ان دونوں آلات سے ملنے والی معلومات اس تحقیقاتی عمل میں کافی معاون ثابت ہوگی کیوں کہ ابھی بھی ایسے کئی سوالات ہیں جن کے جوابات حاصل کرنا باقی ہے۔‘
پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ایسا تاثر پایا جارہا ہے کہ لاہور سے کراچی آنے والی پرواز پی کے 8303 کے ساتھ ہونے والے حادثے کے ذمےدار اس پرواز کے پائلٹ سجاد گل ہیں۔ اس حوالےسے سوشل میڈیا پر ایک آڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں ہوائی جہاز ایئر بس 320 کے ایک پائلٹ یہ دعویٰ کرتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ وہ پچھلے چودہ سال سے جہاز اڑا رہے ہیں۔ اس لیے ان کے تجزیے کے مطابق کراچی کی ماڈل کالونی میں کریش ہونے والا جہاز معمول سے اونچا اڑ رہا تھا البتہ گراونڈ پر موجود کنٹرول یونٹ سے انہیں درست ہدایات دی گئیں تھیں۔ مگر دوران پرواز اور کریش سے قبل تمام ہدایات کی خلاف ورزی کی گئی۔
ٹوئٹر پو ایک ٹوئٹ بھی سامنے آئی جس میں ایک شخص کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ کراچی طیارہ حادثے میں تباہ ہونے والے جہاز سے کاپٹ وائس ریکارڈر چوری ہوگیا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں کام کرانے والے ایویشن ٹریننگ سپیشلسٹ حمود عالم کا اپنی ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ کاک پٹ وائس ریکارڈر کو ریک سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ اس ریک پر فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر موجود ہے۔ عموماً یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔ جس نے یہ چوری کی ہے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے۔
پی آئی اے فلائٹ سیفٹی ہیڈ جو پہلے خود ہی اس کریش سائٹ پر پہنچے تھے ان سے اس حوالے سے تفتیش کی جائے۔‘
CVR has been removed from the rack, which is intact. DFDR is present & both are generally found together as they are next to each other. FIR should be filed against person who has stolen this. PIA flight safety head who reached crash site first on his own should be investigated. pic.twitter.com/rIA3dyZ5tA
— Hamood Alam (@hamoodalam) May 28, 2020
ان تمام قیاس آرائیوں کے تردید کرتے ہوئے پی آئی اے کے ترجمان عبدللہ حفیظ خان کا کہنا تھا کہ ’ ایئربس اے 320 حادثےکی مکمل تحقیقاتی رپورٹ آنا ابھی باقی ہے۔ جب یہ رپورٹ سامنے آئے گی تب ہی اس بات کا تعین کیا جاسکے گیا کہ طیارہ گرنے کی اصل وجوہات کیا تھیں۔ کاک پٹ وائس ریکارڈر کا ملنا تحقیقاتی عمل میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اس وائس ریکارڈر میں موجود پائلٹ کی گفتگو اور فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر سے ملنے والی معلومات سے یہ بات سامنے آئے گی کہ پلین کریش سے قبل ہوائی جہاز کے کاک پٹ میں کیا صورت حال تھی اور کیا اس حادثے میں پائلٹ قصور وار ہے یا نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کاک پٹ وائس ریکارڈر کی تلاش کے لیے پی آئی اے انجینئرنگ ،ٹیکنیکل گراؤنڈ سپورٹ اور سی اے اے ویجلنس کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ منگل کو فرانس سے کراچی آنے والی ماہرین پر مشتمل ائیربس کمپنی کی گیارہ رکنی ٹیم بھی اس تحقیقاتی عمل میں شامل ہے۔
آج تمام تحقیقاتی ٹیمز کی جانب سے جائے وقوعہ سے لے کر جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے رن وے تک تحقیقات کی گئیں۔ ائیرپورٹ منتقل کیے گئے جہاز کے ملبے سے بھی شواہد اکٹھے کیے جائیں گے۔
بائیس مئی کی دوپہر پی آئی اے کا لاہور سے کراچی آنے والا طیارہ ائیر پورٹ کے قریب واقع ماڈل کالونی میں گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 97 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ دو افراد معجزانہ طور پر بچ گئے تھے۔ ہلاک ہونے والے افراد میں سے سینتالیس لاشوں کی شناخت کی جاچکی ہے جبکہ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے باقی لاشوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔