ایک مسلمان خاتون برطانیہ میں پہلی حجاب پہننے والی جج بن گئی ہیں۔
چالیس سالہ وکیل رفیعہ ارشد کو اس پیشے میں 17 سال گزرنے کے بعد گذشتہ ہفتے مڈلینڈز ایریا کا ڈپٹی جج مقرر کیا گیا تھا۔
انہوں نے میٹرو کو بتایا، ’یہ یقینی طور پر میرے لیے بڑی بات ہے۔ میں جانتی ہوں کہ یہ صرف میرے بارے میں نہیں ہے۔ یہ تمام خواتین، محض مسلمان نہیں تمام عورتوں کے لیے اہم ہے۔‘
اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب وہ کمسن بچی تھیں تو انہیں ڈر تھا کہ معاشرے کے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے اور نسلی طور پر اقلیتی پس منظر رکھنے کی وجہ سے وہ اس پیشے تنہائی کا سامنا کر سکتی ہیں۔
نئی جج نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ وہ اپنے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے ’اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ تنوع کی آواز صاف اور اونچی طور پر سنی جائے۔
مس رفیعہ نے کہا کہ اس تقرری کے بارے میں بہت سارے مثبت ردعمل سامنے آنا ان کا سب سے بڑا انعام تھا۔
انہوں نے اخبار کو بتایا، ’مجھے لوگوں، خواتین اور مردوں کی طرف سے بہت سی ای میلز موصول ہوئی ہیں۔ سب سے زیادہ توجہ اپنی طرف مبذول کرنے والی ای میلز ان خواتین کی طرف سے ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ حجاب پہنتی ہیں اور یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ وہ بیرسٹر کے طور پر بھی کام کرسکتی ہیں جج بننا تو دور کی بات تھی۔‘
لندن میں قانون کا تربیتی کورس مکمل کرنے کے بعد انہوں نے 2002 میں وکیل کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا اور 2004 میں سینٹ میری فیملی لا آفس میں شمولیت اختیار کر لی۔
اپنے کیریئر کے دوران انہوں نے قانون کے مختلف شعبوں جن میں بچوں کے نجی حقوق، جبری شادی، نسوانی اعضا کا ختنہ اور اسلامی قانون شامل ہیں، میں کام کیا۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ اچھے کام اور تجربے کے باوجود انہیں امتیازی سلوک اور تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے بعض اوقات کمرہ عدالت میں انہیں مؤکل یا مترجم سمجھا جاتا ہے۔ ایک عدالتی گائیڈ نے بھی انہیں یہی سمجھا۔
مس رفیعہ نے کہا: ’مجھے اس عدالتی گائیڈ سے کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن یہ دراصل ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور وہ بھی اس شخص کے بارے میں جو عدالت میں کام کرتا ہے۔ اس میں پیشہ ور افراد سے توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ میرے جیسے نظر آئیں۔ میری رائے میں امپوسٹر سینڈروم ان عوامل میں سے ایک ہے جو خواتین کو روکتا ہے۔ میں نے متعدد بار کمرہ عدالت میں خود سے پوچھا ہے کہ کیا میں اتنی اہل ہوں۔‘
مس رفیعہ نے 2001 میں اپنے کیریئر کے ایک اہم لمحے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جب قانون کے مطالعہ کی سکالرشپ کے لیے انٹرویو کے لیے جاتے وقت گھر کے ایک فرد نے انہیں حجاب نہ پہننے کا مشورہ دیا، کیوں کہ ان کے خیال میں یہ ان کی کامیابی کے امکان کو متاثر کرسکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں نے ہیڈ سکارف پہننے کا فیصلہ کیا کیونکہ میرے لیے یہ ضروری ہے کہ لوگ مجھے اسی طرح قبول کریں اور اگر میں ترقی کرتی ہوئی ایک مختلف شخصیت بن جاتی تو یہ میری خواہش نہیں ہوگی۔‘
اسی روش کے ساتھ انہوں نے وکالت کے میدان میں قدم رکھا، کچھ کامیابیاں حاصل کیں اور اسلامی خاندانی قانون کی سرکردہ تحریر کی مصنفہ بن گئیں۔
سینٹ میری فیملی لا چیمبر کے عہدیداروں نے اقلیتوں کو ترغیب دینے کی مس رفیعہ کی کوششوں کی تعریف کی ہے۔
وکی ہوجز اور جوڈی کلیکسٹن نے کہا، ’مس رفیعہ نے مسلم خواتین کے قانون کے پیشے اور بار میں کامیابی کا راستہ ہموار کیا ہے اور انہوں نے پیشے میں مساوات اور تنوع کو فروغ دینے کے لیے انتھک محنت کی ہے۔ وہ واقعی اس عہدے کی مستحق ہیں۔ اور یہ اس کے لیے ایک اچھی تقرری ہے اور ہم سب کو سینٹ میری لا چیمبر میں ان پر فخر ہے اور ان کی مزید کامیابی کی خواہش کرتے ہیں۔‘
مس رفیعہ نے کہا کہ اگرچہ برطانوی عدلیہ مختلف نسلی اقلیتوں کو اس میں لانے کی پوری کوشش کر رہی ہے، لیکن وہ اپنے طور پر اس پیشہ میں اس تنوع کا دفاع کرنے کی ذمہ داری خود پر محسوس کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا، ’اب میرا کام یہ ہے کہ میں ان کی آواز بنو اور اس بات کو یقینی بناؤں کہ نسلی تنوع کی آواز بلند اور واضح طور پر مناسب جگہوں پر سنی جائے۔‘
© The Independent