جب بھی کوئی نئی چیز سامنے آتی ہے تو معاشرے کا پہلا ردِ عمل اس کا انکار ہوتا ہے، یہ بات شاید دوسرے شعبوں سے زیادہ ادب پر صادق آتی ہے۔ آزاد، نظم، نثری نظم، ناول، افسانہ، جب بھی پہلے پہلے لکھے گئے انہیں اعتراض کے سینگوں پر اٹھا لیا گیا۔
ادریس بابر اس ناروا سلوک کا حالیہ شکار ہیں۔ ان کا قصور اردو ادب کی اک نئی صنف ’عشرہ‘ تخلیق کرنا ہے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ عوام نے عشرے کو نہ صرف شرف قبولیت بخشی بلکہ یہ روز بروز مقبولیت کی بلندیوں کی جانب گامزن ہے۔
درجن بھر سے زائد زبانوں میں عشرے لکھے جا رہے ہیں۔ اردو بولنے اور لکھنے والے ممالک میں نئے شعرا اس صنف پہ طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ مختلف درس گاہیں عشرے کے مقابلوں کا انعقاد کر رہی ہیں۔
ادریس بابر ہماری حالیہ تاریخ کے ان اکابرین میں سے ہیں جو عالمی سطح پہ اپنے نقش ثبت کر رہے ہیں۔ ادریس بابر نے عشرے کی صورت میں اردو ادب کو پوسٹ ماڈرن دور کے تقاضوں کے عین مطابق ڈھال دیا ہے۔
عشرہ کیا ہے اس سوال کا جواب ادریس بابر کچھ یوں دیتے ہیں:
’عشرہ دس سطروں پر مبنی شاعری کا نام ہے جس کے لیے کسی مخصوص صنف یا ہئیت، فارم یا رِدم کی قید نہیں۔ ایک عشرہ غزلیہ بھی ہو سکتا ہے نظمیہ بھی۔ قصیدہ ہو کہ ہجو، واسوخت ہو یا شہرآشوب ہو، بھلا اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اور تو اور، یہ حمد و نعت کو بهی ویسا ہی مناسب ہے جیسا یہ سلام و منقبت کے لیے موزوں ہے۔ پھر یہ اتنی ہی آسانی یا دشواری سے پابند بھی ہو سکتا ہے، آزاد بھی اور تقریباً اسی طرح بلینک ورس بھی، نثری نظم بھی۔ یا ان میں سے کچھ یا سبھی کا کوئی آمیزہ۔ عشرہ وقت ضائع کرتا ہے نہ جگہ۔ ہاں کبھی کبھی بدل دیتا ہے ایک کو دوسرے میں۔‘
دور حاضر کی بھاگ دوڑ بھری زندگی میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ شاعری کے نام پہ کئی کئی صفحات پہ مشتمل الجھن سے بھرپور راگنی پڑھے۔ اسی لیے مبشر علی زیدی کی ’سو لفظوں کی کہانی‘ ہو یا ادریس بابر کا دس سطروں کا عشرہ اپنے اختصار کی بدولت نئی نسل کے لیے کشش کا حامل ہے۔
ادریس بابر جدت پسند شاعروں کا سرخیل ہے جدید شاعر وہ ہے جو اپنے سے اگلی نسلوں کے لیے شاعری کرے اور ادریس بابر کا عشرہ ہیئت میں جدید ہے اور موضوعات کے حساب سے جدید ترین۔
ادریس بابر کا عشرہ مزاحمتی ادب، جدیدیت اور مابعدجدیدیت جیسے مباحث کا خلاصہ، پوسٹ کولونیل بیانیہ میں ہم عصر شاعری کے غالب اور معاصر رجحانات کو واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جب ہم نظم نگاری کے ابتدائی دور پر نظر ڈالتے ہیں تو اس دور کی نظموں میں موضوعات کے لحاظ سے بڑا تنوع نظر آتا ہے۔ مذہبی خیالات، تصوف کے مسائل، حسن و عشق کا بیان، قدرتی مناظر، اور سماجی زندگی کے رسومات، میلے‘ تہوار وغیرہ کو شاعری کا موضوع بنایا گیا ہے۔ گو میر جعفر زٹلی نے اپنے عہد کے حقائق کو ایک مخصوص انداز میں بیان کر نے کی کوشش کی ہے جیسے مغلیہ حکومت کے زوال اور دہلی کی تباہی و بدحالی کی تصویر ان کی شاعری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے ظالم حاکموں، جا بر حکمرانوں، بے ایمان وزیروں کو ہدفِ ملامت بنایا ہے۔ باوجود اس کے کہ جعفر زٹلی نے طنزیہ اور ہجویہ شاعری کی ایک روایت قائم کی۔
مسرت، محبت، مزاحمت، مذہب، ماضی، مشین، مکافات، مناجات اور مقدمات ادریس بابر کا عشرہ نہ صرف موضوعات کے اعتبار سے متنوع ہے بلکہ اس میں شاعر کا کردار اک سیاسی مبصر کا ہے کبھی محقق کا کبھی تہذیبی نرگسیت کے تصورات پہ کاری ضرب لگاتا اور کبھی اک منجھے ہوئے نقاد کا جو کبھی قبح سے زیادہ حسن کو اجاگر کرتا ہے اور کبھی حسن کی ملمع کاری ہٹا کر اندر والا کریہہ چہرہ عیاں کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادریس بابر کا عشرہ خوشی خوشحالی امن اور ہم آہنگی کی آرزو رکھتا ہے نیز کثیر الثقافتی کثیر المذہبی اور کثیر المسلکی معاشرے میں بقائے باہمی کا درس دیتا ہے۔
سگمنڈ فروئڈ نے کہا تھا کہ اچھے مستقبل بدلنے کے لیے برا ماضی بدلنا پڑتا ہے اور برا ماضی بدلنے کے لیے برائی کی جڑ تک پہنچنا پڑتا ہے برائی کی جڑ تک پہنچنے کے لیے فرد کی تحلیلِ نفسی کی جاتی ہے۔ آج ہماری قوم کو بھی تحلیلِ نفسی کی ضرورت ہے اور ادریس بابر کا عشرہ پورے معاشرے کے لیے مجموعی طور پر یہ خدمت سرانجام دے رہا ہے۔ یہ حافظہ، ماضی، تاریخ اور حملہ آوروں کے ساتھ ہیروز کے متعلق بھی وہ نفسیات تشکیل دے رہا ہے جو سماج کو مشتعل رکھتی ہے مگر پھر بھی لوگ پرامن رہتے ہیں۔
اس معاشرے کے ایسے معاملات جن کو غیر اعلانیہ طور پہ ٹیبوز قرار دیا جا چکا ہے پھر وہ جبری گمشدگیاں ہوں، یا سانحات سیاسی بت ہوں یا شناخت کا بحران ادریس بابر کا عشرہ ان کا مقدمہ پیش کرتا ہے۔ اس مقدمے کے تحیرات میں پیہم بدلتے موضوعات اک نادیدہ تخلیقی عمل سے بندھے ہیں جو صرف دس سطروں پر مشتمل ہے:
ادریس کے عشرے کے چند نمونے دیکھیے:
میٹنگ
اس نے میٹنگ بلائی اور کہا
لوگ، دن رات کنٹرول میں ہیں
ٹیپ منہ پر لگائی اور کہا
سب بیانات کنٹرول میں ہیں
اس نے گولی چلائی اور کہا
سر جی، حالات کنٹرول میں ہیں
سب زمیں پر خدا کے نائب تھے
سب زمیں پر خدا کے نائب ہیں
وہ جو اپنی رضا سے مارے گئے۔۔۔
وہ جو اپنی خوشی سے غائب ہیں
پَسنی میں پِسنا
بوڑھوں کی ٹانگیں جواب دے گئیں
مرد میلے نوٹ، کچیلے سکے جوڑ توڑ کے ہزار پورا کرنے لگے
عورتیں سجدے میں گر گئیں (یا ویسے ہی)
پچاس کلومیٹر فراق کی گھاٹیوں سے
وہ تیسویں کا چاند
وہ ترقی کا سورج
سکس بلین ڈالر مین کی شان والا
چار چھے ٹائروں پہ ٹاپتا نمودار ہوا
بچے بالٹیاں لے کر بھاگے، میں ڈر گیا
جیسے ٹینکر میں پانی نہیں، پیٹرول ہو
ماب کشی
یہ جو ماب (mob) ہے یہ با ضد ہے میں بھی تمہارے قاتلوں میں تھا
زینب جی! کیا کہوں ان کے بارے! سارے عاقل بالغ مرد ہیں
من مرضی یا اپنی اپنی دھن غرضی کے مالک فرد ہیں
کائنات جی! آپ سے معذرت کرنا ہو گی
آپ پہ لکھا جانے والا پہلا آخری عشرہ
میرے ساتھ ہی زندہ جلا دیا جاے گا
آئینے کے پار سے ہاروی فرینکنسٹائن نے قہقہہ مارا
اور ہجوم نے پتھر.. پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا ۔ ۔ ۔ مارا
مشال کی ٹوٹی انگلیاں تھام کے آنکھیں بند کیں
وقت کے اندھے کنویں میں الٹی چھلانگ لگا دی
دو قومی نظریہ
وہ انسان کا قیمہ بنا دیتے ہیں
گائے کی مقدس مامتا کے مارے
ہم، زندہ جلانے پر اکتفا کرتے ہیں
بوسیدہ اوراق کی مبینہ توہین پر
وہ شہریوں کو اندھا کر دیتے ہیں
ہم شہریوں کو غائب کر دیتے ہیں
ستر سال بعد ... دونوں کے ایک ہاتھ میں آئی فون ہے
دوسرے میں بدستور ... تلوار / کرپان / گیتا / قرآن
ستر سال پہلے ... کیسے اکٹھے رہ سکتے تھے
ہم جیسے خدا ترس + ان جیسے انسان دوست