سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اپنی رہنما بینظیر بھٹو کے حوالے سے متنازع ٹویٹ کرنے پر امریکی شہری سنتھیا ڈی رچی کے خلاف اب تک ملک بھر میں سو سے زائد شکایات درج کروا چکی ہے۔
سنتھیا ڈی رچی نے بھی اس کے جواب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان کی جانب سے ہراساں کیے جانے پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) میں شکایت درج کروا دی ہے۔
یکم جون کو جمع کروائی گئی درخواست میں سنتھیا نے دعویٰ کیا ہے کہ بینظیر بھٹو پر لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزی ثبوت اور مبینہ طور پر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث تحریک پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) سے پیپلز پارٹی کے گہرے تعلق کی اہم معلومات ان کے پاس موجود ہے۔
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں مزید لکھا کہ اگر پارٹی چئیرمین بلاول بھٹو ان سے عوام کے سامنے معافی مانگیں تو وہ نہ صرف اپنی ٹویٹ ہٹانے پر غور کریں گی بلکہ ان دستاویزات کو بھی عام نہیں کریں گی۔
درخواست میں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پی پی پی کی جانب سے ان کا فون نمبر، گھر کا پتہ اور ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر لیک کر دی گئی ہیں۔ اس کی وجہ سے انہیں پچھلے 48 گھنٹوں میں اب تک ڈیڑھ سو سے زائد دھمکی آمیز کالز اور فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ پر سو سے زائد غیر اخلاقی پیغامات موصول ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اور ان کے گھر والوں کو قتل، ریپ اور اغوا کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سنتھیا ڈی رچی کا کہنا تھا: ’میں ثبوت کے بغیر کسی کے بھی بارے میں ہتک آمیز بیانات نہیں دیتی۔ ٹویٹ میں جو باتیں میں نے بینظیر بھٹو کے حوالے سے کہیں ہیں وہ مجھے پیپلز پارٹی کے ہی ایک سینیئر رہنما نے بتائی تھیں۔ میرے پاس اپنے دعووں کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزات موجود ہیں جو یہ واضح کر سکتے ہیں کہ میری ٹویٹ میں کہی گئی تمام باتیں سچ ہیں۔ یقیناً پیپلز پارٹی نہیں چاہے گی کہ یہ دستاویزات منظرِعام پر آئیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’میں پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کی عزت کرتی ہوں بلکہ مستقبل کے ایک ممکنہ لیڈر کی حیثیت سے میں بلاول پر ایک ڈاکیومینٹری فلم بھی بنانا چاہتی تھی۔ لیکن میں چاہتی ہوں کہ وہ پی پی پی کے کارکنان کی جانب سے مجھے ہراساں کیے جانے پر مجھ سے معافی مانگیں۔ اگر ایسا ہوا تو میں اپنی ٹویٹ ہٹانے پرغور کروں گی۔‘
This echos stories of what BB used to do when her husband cheated. She"d have the guards rape the women.
— Cynthia D. Ritchie (@CynthiaDRitchie) May 28, 2020
Why do women condone this rape culture? Why aren't the men ever held accountable? Where is the justice system?
To Pakistan's youth: please reject this backward thinking! https://t.co/Xr3xTNzAVq
سنتھیا نے ٹویٹ کب کی اور اس میں کیا تھا؟
سنتھیا ڈی رچی نے 28 مئی کی صبح ایک ٹویٹ پر اپنا تبصرہ جاری کیا جو پاکستانی اداکارہ عظمیٰ خان پر ہونے والے مبینہ تشدد کی ویڈیوز کے حوالے سے تھا۔
اس ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ اس واقع سے انہیں وہ وقت یاد آرہا ہے ’جب بینظیر بھٹو بھی یہی کیا کرتی تھیں، جب ان کے شوہر ان سے بیوفائی کرتے تھے۔ سنتھیا نے دعویٰ کیا کہ بینظیر بھٹو اپنے گارڈز سے ایسی خواتین کا ریپ کرواتی تھیں (جن کے ساتھ ان کے شوہر آصف علی زرداری کے مبینہ تعلقات ہوتے تھے)۔‘
سنتھیا نے مزید لکھا تھا کہ ’خواتین ریپ کے کلچر کی مخالفت کیوں نہیں کرتیں؟ کیوں کبھی مردوں کو جوابدہ نہیں کیا جاتا؟ انصاف کا نظام کہاں ہے؟ ہاکستانی نوجوانوں کو اس پسماندہ سوچ کو مسترد کرنا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحر کامران نے حکومت پاکستان، ایف آئی اے اور آئی ایس آئی سے درخواست کی ہے کہ سنتھیا ڈی رچی کی ’مشکوک سرگرمیوں‘ کے حوالے سے تحقیقات کی جائیں اور پاکستان سے ان کی فوری ملک بدری کا عمل یقینی بنایا جائے۔
درخواست کے متن میں سینیٹر سحر کامران نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ سنتھیا ڈی رچی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے پاکستان میں عوامی جذبات کو متاثر کرنے اور بیرون ملک پاکستانیوں کو مشتعل کرنے کا سبب بنی ہوئی ہیں اور ان کی پیپلز پارٹی کے خلاف سازشوں سے پارٹی کے کارکنان میں تشویش کی لہر پیدا ہو رہی ہے۔
انہوں نے ڈائریکٹر جنرل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) واجد ضیا اور وزارتِ خارجہ کے سیکرٹری سہیل محمود اور ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے سوشل میڈیا کی وساطت سے ایک خط کے ذریعے سنتھیا ڈی رچی کے حوالے سے پانچ سوالات کے جوابات بھی طلب کیے ہیں۔
سحر کامران کے سنتھیا ڈی رچی کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات
1۔ سنتھیا ڈی رچی پاکستان میں کیوں اور کس حیثیت سے رہائش پذیر ہیں؟
2۔ ان کے ویزے کی نوعیت اور مدت کتنی ہے اور پاکستان میں ان کی رہائش کے حوالے سے کون سپورٹ کر رہا ہے؟
3۔ ایک طرف وہ خود کو سیاح، صحافی اور بیلی ڈانسر کے طور پر متعارف کرواتی رہی ہیں، لیکن پاکستان میں اعلیٰ سطح پر سیاسی امور میں مداخلت کر رہی ہیں۔
4۔ پاکستان میں عوامی جذبات کو بھڑکانے کے حوالے سے ان کے مقاصد کیا ہیں اور وہ کیوں سندھ اور سندھ کے حکومتی امور کو ٹارگٹ کرتی ہیں، خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب سندھ کو کرونا وبا کے حوالے سے اقدامات پر سراہا جا رہا ہے۔
5۔ پاکستان میں اس طرح کے مشکوک کرداروں کی موجودگی کے حوالے سے سرکاری حکام کی پالیسی کیا ہے؟
سنتھیا رچی ہیں کون؟
اڑتیس سالہ سنتھیا ڈی رچی امریکی شہری ہیں جو 2009 میں پہلی بار پاکستان آئیں۔ اس دوران انہوں نے کچھ عرصہ پاکستان سے باہر بھی گزارا لیکن پچھلے سات سالوں سے وہ شہر اقتدار اسلام آباد میں مستقل طور پر مقیم ہیں۔
سنتھیا نے سال 2003 میں امریکہ کی لوئیزیانہ سٹیٹ یونیورسٹی سے قانون اور شعبہ عامہ میں اپنی بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس ہی یونیورسٹی سے انہوں 2005 میں تعلیم اور نفسیات کے شعبے میں اپنا ماسٹرز بھی مکمل کیا۔
اس کے بعد انہوں نے مزید دو اور شعبوں میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی جس میں سے ایک انہوں نے طبی نفسیات کے شعبے میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کی پیپرڈائن یونیورسٹی سے حاصل کی جبکہ دوسری ڈگری سٹریٹیجک پبلیک ریلیشنز کے شعبے میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے مکمل کی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد سنتھیا ٹیکساز جوڈیشری کی جانب سے چائیلڈ ایڈوکیٹ کے طور پر مقرر ہوئیں اور وہاں انہوں نے تقریباً ایک سال تک کام کیا۔
2008 میں سنتھیا نے امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کے سٹی کاؤنسل میں کمیونٹی رابطہ افسر کے فرائض انجام دیے۔ سنتھیا کا اس حوالے سے کہنا تھا: ’اس وقت ہیوسٹن میں پاکستانی کمیونٹی سیاسی اور سماجی سطح پر کافی فعال تھی۔ اس دوران پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ مل کر میں نے ہیوسٹن شہر کے لیے کافی کام کیا اور وہیں سے پاکستانیوں کے لیے میرے دل میں عزت پیدا ہوئی۔‘
پاکستان میں 2010 میں آنے والے سیلاب کے دوران سنتھیا ڈی رچی امریکی شہر ہیوسٹن کی اس وقت کی میئر اینیس پارکر کی خیرسگالی سفیر کے طور پر مختصر وقت کے لیے پاکستان آئیں۔ اس دورے کے کچھ وقت بعد سنتھیا کی ملاقات موجودہ وزیراعظم عمران خان سے امریکی شہر ہیوسٹن میں ہوئی جہاں وہ ایک فنڈ ریزنگ ایونٹ میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ سنتھیا کے مطابق اس ملاقات کے بعد وہ عمران سے رابطے میں رہیں۔
اس ایونٹ کے کچھ عرصے بعد ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے سنتھیا ڈی رچی کو محکمہ صحت میں کمیونیکیشن لیکچرار کے طور کام کرنے کی دعوت دی گئی۔ سنتھیا کے مطابق انہوں نے اس دعوت کو قبول کیا اور پاکستان آکر بلا معاوضہ پی پی پی حکومت کو اپنی خدمات انجام دہیں۔ البتہ انہیں حکومت کی جانب سے رہنے کی جگہ، سفری سہولیات، ایک فون اور ایک ٹیبلٹ ڈیوائس فراہم کی گئی تھی۔
اس دوران سنتھیا نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وفاقی وزیر برائے سائنس وٹیکنالوجی تھے، کی بیٹی فرحانہ سواتی کی این جی او ہیومینیٹی ہوپ میں بھی کام کیا جو ڈیڑھ سال کے عرصے تک جاری رہا۔
2011 میں سنتھیا ڈی رچی نے پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ میں سٹیرٹیجسٹ اور ریسرچر کے طور پر کام کیا۔ اس کے علاوہ پارٹی منشور کو ترتیب دینے میں بھی انہوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ سنتھیا کے مطابق اس دوران ان کی دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی وابستگی ہوئی جن میں ایم کیو ایم، ن لیگ، ق لیگ، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی سر فہرست ہیں۔ تاہم ان کے مطابق اس دوران کچھ جماعتوں کی جانب سے ان کی جاسوسی کی گئی اور متعدد بار ان پر حملہ بھی ہوا۔
مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں اوسامہ بن لادن کے خلاف امریکہ کے آپریشن کے بعد سنتھیا کی رہائش اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں منتقل کردی گئی اور ان کی سفری سہولیات واپس لے لی گئیں۔ سنتھیا کے مطابق مخالف جماعت پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ میں کام کرنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی حکومت کا رویہ ان سے تبدیل ہوا۔
کئی سال تک سنتھیا پاکستان میں مقیم رہیں اور پاکستان تحریک انصاف کی میڈیا ونگ سے میں اپنے فرائض انجام دیتی رہیں۔ اس دوران انہوں نے ’تھرو آ ڈفرنٹ لینس‘ نامی میڈیا پروڈکشن کمپنی کا آغاز کیا۔ یہ کمپنی امریکہ میں رجسٹرڈ ہے اور پاکستان میں ’واک اباؤٹ فلمز ‘ نامی کمپنی کے اشتراک سے ڈاکیومینٹری ویڈیوز بناتی ہے۔
2015 میں سنتھیا ڈی رچی نے ’ایمرجنگ فیسز‘ کے نام نے پاکستانی ثقافت اور تہزیب پر مبنی اپنی پہلی ڈاکیومینٹری فلم بھی بنائی۔ اس کے علاوہ سنتھیا بطور ایک رائٹر ایکسپریس ٹریبون، دی نیوز انٹرنیشنل، ساؤتھ ایشیا میگزین اور گلوبل ولیج سپیس کے لیے لکھتی ہیں۔
سنتھیا خود کو فری لانس میڈیا ڈائریکٹر، پروڈیوسر، وی لاگر اور سیاح قرار دیتی ہیں۔ یوٹیوب پر ان کا ایک چینل بھی موجود ہے جس پر پاکستان کے مختلف سیاحتی مقامات پر ان کی بنائی گئی ویڈیوز اور وی لاگز موجود ہیں جن کے ذریعے پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کو دکھایا گیا ہے۔ ٹوئٹر پر ان کے فالورز کی تعد ایک لاکھ 88 ہزار سے زائد ہے جن میں اکثریت پاکستانیوں کی ہے۔ ان کے ٹوئٹر ہینڈل پر ان کی پاکستانی لباس اور زیورات میں ملبوس ایک تصویر بھی لگی ہوئی ہے۔
سنتھیا کے مطابق وہ کچھ عرصے سے مقامی ایجنسیز اور پاکستان آرمی کی مدد سے پشتون تحفظ موومنٹ کی مبینہ ملک مخالف سرگرمیوں کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہیں۔ تاہم یہ بات واضح نہیں ہے کہ ٹریول وی لاگنگ اور فری لانس ڈاکیومینٹری میکنگ کرنے والی سنتھیا رچی نے پی ٹی ایم کے حوالے سے تحقیق کا آغاز کیوں کیا۔
سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو سے متعلق ٹویٹس کے بعد ان پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں اور وہ بیشتر الزامات کے خود جواب دے رہی ہیں، خصوصاً پیپلز پارٹی کے حامیوں کی جانب سے انہیں بھیجے گئے پیغامات کے سکرین شاٹس شیئر کرکے انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں ہراساں کیا جارہا ہے۔
سنتھیا اس سے قبل بھی بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی بختاور بھٹو کے حوالے سے متنازع ٹویٹس کرنے پر تنقید کا نشانہ بن چکی ہیں۔ جبکہ پی ٹی ایم کی رکن گلالئی اسماعیل کے حوالے سے بھی وہ متنازع ٹویٹس کرتی رہی ہیں جس پر انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔