پاکستان کے قبائلی اضلاع جنوبی و شمالی وزیرستان میں نامعلوم افراد کی جانب سے نشانہ بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں اضافے کے بعد قبائلی جرگے اس سلسلے کو روکنے کے لیے متحرک ہوئے ہیں دوسری جانب حکومت نے خود وضاحت کی ہے کہ وزیرستان کے پہاڑی سلسلوں میں طالبان کے مختلف گروپس موجود ہیں اور کسی بھی وقت اہم شخصیات پر حملے ہوسکتے ہیں۔
مبصرین کے خیال میں قبائلی جرگے موجودہ حالات میں غیرموثر ہو چکے ہیں اور جرگے میں شامل لوگوں کی اتنی اہلیت نہیں کہ وہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث افراد کو بےنقاب کر سکیں۔ ایک مقامی قبائلی کے بقول یہ صرف روایتی جرگے ہی بن کر رہ گئے ہیں اور بس صرف عام شہریوں کو دلاسہ ہی دے سکتے ہیں۔ ’سرکار کے حمایت کے بغیر وہ کسی بھی صورت میں امن و امان قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والی ایک خفیہ رپورٹ میں سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا نے چند دن پہلے تمام محکموں کو خبردار کیا تھا کہ ٹانک اور جنوبی وزیرستان کے درمیان گرنی کے پہاڑی سلسلوں میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے مولوی عظمت اللہ شوبی خیل گروپ کے لگ بھگ ایک درجن مسلح افراد اور تحریک طالبان پاکستان سجنا گروپ جس میں نجیب محسود، سفیر محسود، داود محسود، اور نیک رسول محسود شامل ہیں کئی دنوں سے رات کے وقت دیکھے گئے ہیں۔
رپورٹ میں یہ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ شدت پسند کچھ بھی کرسکتے ہیں جس میں فوجی قافلوں پر حملے، قبائلی عمائدین اور دوسری اہم شخصیات کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ حکام نے تمام محکموں کو سخت حفاظتی انتظامات اور کڑی نگرانی کی تجویز دی ہے۔
سی ٹی ڈی کی رپورٹ اپنی جگہ لیکن قبائلی امن و امان برقرار رکھنے کی جرگوں کے ذریعے کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایک گرینڈ جرگہ شمالی وزیرستان کے سب ڈویژن میرعلی میں منعقد ہوا جس میں قبائلی عمائدین کے علاوہ سیاسی و سماجی یوتھ آف وزیرستان اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔ جرگے میں مقررین نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑا آپریشن ضرب عضب کیا گیا لیکن اب بھی علاقے میں نہ مکمل امن قائم ہوا اور نہ دہشت گرد ختم ہوئے۔
جرگے میں مزید کہا گیا کہ آپریشن کے دوران عوام نے امن و امان کی خاطر مالی و جانی نقصانات برداشت کیے لیکن ان کی قربانیوں کا یہی صلہ مل رہا ہے کہ وزیرستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے۔
جرگے میں مزید بتایا گیا کہ ٹارگٹ کلنگ ایک طرف تو دوسری طرف لوگوں کا معاشی قتل بھی بدستور جاری ہے۔ جرگے کے مطابق وزیرستان میں تعلیمی اداروں کو ایک سازش کے تحت تباہ کیا گیا تھا تاکہ آئندہ نسل بھی ان پڑھ رہے اور ملک کے اچھے شہری نہ بن سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جرگے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ امن و امان قائم رکھنے کے لیے جرگے کا ساتھ دیے۔ جرگے نے شکایت کی کہ حکومت ان کی بات سننے کے لیے تیار نہیں جس کی وجہ سے حالات خراب ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب وانا میں عارف وزیر کے قتل کے بعد ایک قومی جرگہ طلب کیا گیا تھا اور گذشتہ ایک ہفتے سے روزانہ کی بنیاد پر جرگوں کا سلسلہ جاری تھا۔ جرگے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ وانا میں پولیس کی رٹ کو بحال کرے اور امن و امان کے لیے گُڈ طالبان یا امن کمیٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
قومی مشران نے مزید کہا کہ احمدزئی وزیر کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ وانا میں ریاست کے خلاف کوئی نازیبا الفاظ استعمال کر سکیں۔ شیرین جان، ملک جمیل، مولانا میرذاجان، ملک نور علی اور سید اللہ نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ضلع جنوبی وزیرستان کے تمام دفاتر کو ضلع ٹانک سے جنوبی وزیرستان منتقل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک ضلع ٹانک میں قائم تمام دفاتر کو ضلع جنوبی وزیرستان منتقل نہیں کیا جاتا تب تک وہ پولیس کے اختیار کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جرگے نے علاقے میں سیاہ شیشوں والی گاڑیوں پر بھی پابندی عائد کی اور ضلع ٹانک سے تمام سرکاری دفاتر کو جنوبی وزیرستان منتقل کرنے کا مطالبہ دوہرایا۔ آخر میں جرگہ بدمزگی کا شکار ہو کر غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ جرگہ جس مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا وہ پورا نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ جرگے کا مقصد تھا کہ عارف وزیر کے قاتلوں کو بےنقاب کیا جائے گا لیکن جرگے نے الٹا پی ٹی ایم کے کارکنوں کو سرکار کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے سے منع کرنے کی کوشش کی ہے۔