قبائلی اضلاع کے مسائل کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی دفتر باچا خان مرکز پشاور میں جرگہ منعقد کیا گیا جس میں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن، بلوچستان عوامی پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز سمیت دیگر چھوٹی بڑی پارٹیوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ جرگے کی میزبانی اے این پی کر رہی تھی۔
عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے منعقد قبائلی ضم شدہ اضلاع کے مسائل کے حوالے سے جرگے میں شریک مختلف سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ کسی بھی صورت قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں کو دوبارہ فعال ہونے نہیں دیں گے اور ساتھ ہی متفقہ طور پر لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
جرگے کے صدر اور اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ فوج کا ضم شدہ اضلاع کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ ان مسائل کے ذمہ دار تو ضیا الحق تھے اور بعد میں اس میں مزید اضافہ پرویز مشرف نے کیا تھا اور یہی فوج ہی ان مسائل کو ختم کر سکتی ہے۔‘
اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھاکہ ’مجھے خوشی ہے کہ سیاسی و غیر سیاسی تنظمیں اس جرگے میں موجود ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ قبائلی اضلاع کے مسائل حل کیے جائیں۔ ہم اگر سنجیدگی سے کام کریں گے تو یہ مسائل ضرور حل ہوں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس جرگے نے ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا جس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ پچیسویں آئینی ترمیم کے تحت صوبائی اور وفاقی حکومتیں 90 روز کے اندر ضم شدہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کروانے میں ناکام ہو چکی ہیں اور اسی آئینی ترمیم کے تحت فوری طور پر یہ انتخابات کرائے جائیں۔
اعلامیے کے مطابق ضم اضلاع میں دوبارہ آباد کاری کے لیے ذاتی مکانات اور عمارتوں کے کیے گئے سروے اور وعدوں کے مطابق سڑکیں، ہسپتال اور کالجز دوبارہ تعمیر کیے جائیں۔
اعلامیے میں لاپتہ افراد کی بات بھی کی گئی ہے جو پشتون تحفظ مومنٹ کے بنیادی مطالبات میں بھی شامل ہے۔ اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ ضم اضلاع میں لاپتہ افراد کی تفصیل پوری معلومات سمیت حکومت سامنے لائے اور اس کے بعد ان افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ ’ضم اضلاع میں گڈ اور بیڈ (طالبان) کا فرق بد امنی کو دعوت دیتا ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ اس امتیاز کو ختم کر کے دائمی اور حقیقی امن کے لیے راہ ہموار کرے۔‘
اسی طرح جرگہ اعلامیے میں لکھا گیا ہے کہ یہ جرگہ پشتون سرزمین اور بالخصوص ضم شدہ اضلاع میں ایک اور پراکسی جنگ نہیں چاہتا اور اس بد امنی سے مخصوص لوگوں کی جو آمدن چل رہی ہے تو اس ذریعے کو بند کیا جائے۔
پی ٹی ایم کی جرگے میں شرکت: کیا پی ٹی ایم اور اے این پی ایک پیج پر ہیں؟
وزیر ستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی علی وزیر، اور صوبائی رکن اسمبلی میر کلام وزیر نے اس جرگے میں پی ٹی ایم کی نمائندگی کی۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ اے این پی کی جانب سے پی ٹی ایم پر مختلف نوعیت کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی کا اس بارے میں موقف رہا ہے کہ پی ٹی ایم کو پاکستان کے ریاستی اداروں کی سپورٹ حاصل ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو پی ٹی ایم کے دو ارکان انتخابات میں کامیاب نہ ہوتے۔ اسی طرح اے این پی کے صدر ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی ایم کے ساتھ ان کے اختلافات اس وجہ سے ہیں کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔تاہم اس جرگے میں پی ٹی ایم کی شمولیت غیر معمولی تھی۔ اس حوالے سے جب علی وزیر سے پوچھا گیا تو انھوں نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’اس جرگے نے ایک تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ پی ٹی ایم جو تحریک پہلے سے چلا رہے ہیں تو اب باقی پشتونوں کے نمائندے بھی جاگ گئے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ آج کے جرگے میں تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن اس کے لیے لائحہ عمل 10 مارچ کو ہونے والے اے این پی کے اعلان کردہ جرگے میں سامنے آئے گا جس کے بعد ایک پارٹی سے دو دو اراکین چنے جائیں گے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کی تحریک اپنی جگہ قائم رہے گی اور ہم ہر اس بندے اور تنظیم کے ساتھ کھڑے ہوں گے جو پشتونوں کی حقوق کی بات کریں گے۔
ایمل ولی نے اس حوالے سے بتایا کہ پی ٹی ایم سمیت کوئی بھی تحریک جو پشتونوں کے حقوق کی بات کرے گی تو ہم ان کا ساتھ دیں گے اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ آج کے جرگے میں پی ٹی ایم کی نمائندگی بھی موجود ہے۔