مغربی افریقہ میں برکینا فاسو کی سرحد کے قریب مالی کے بینکاس خطے میں بندوق برداروں کے جھتے نے چھوٹی سی لڑکی کے گاؤں پر دھاوا بول دیا۔ وہ اس خشک اور بیابان علاقے میں سرگرم شدت پسند گروہوں میں سے کسی ایک گروہ کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اپنے رشتہ داروں کا قتل ہوتے دیکھتی ہیں۔
12 سالہ حمسہ کو کوئی جسمانی گھاؤ تو نہیں لگا تاہم ڈیڑھ دن بعد جب وہ اور ان کا لُٹا پٹا خاندان مرکزی شہر موپتی میں قائم پناہ گزین کیمپ پہنچا تو اس بچی پر سکتہ طاری ہو گیا۔ کیمپ پہنچنے کے بعد ان کا کُل زاد راہ وہ کپڑے تھے جو انہوں نے زیب تن کیے ہوئے تھے۔
ریلیف ورکرز اور ماہر نفسیات کو حمسہ کے منہ سے ایک لفظ نکلوانے کے لیے ایک مہینے کا وقت لگا۔ جب وہ بولی تو ان کا کہنا تھا وہ خوفزدہ ہو گئی تھیں۔ ایک ریلیف ورکر کے مطابق انہوں نے کہا: 'میں بہت زیادہ ڈر گئی تھی، مجھے لگا کہ وہ مجھے بھی مار ڈالیں گے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن کچھ عرصہ بعد حمسہ پھر سے زندگی کی جانب لوٹ آئیں، انہوں نے بچوں کی طرح پھر سے کھیلنا کودنا شروع کر دیا۔
افریقہ کے 'ساحل' (صحرائے اعظم کے جنوبی کنارے سے مالی، نائجر اور برکینا فاسو تک خشکی سے گھیرا ہوا علاقہ) خطے میں آباد فولانی قوم سے تعلق رکھنے والی یہ چھوٹی سی بچی مالی حکومت اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے زیر انتظام اس پناہ گزین کیمپ میں اپنی صلاحیتوں کے باعث جلد ہی قائدانہ حیثیت اختیار کر گئیں۔
حمسہ نے خود کو اپنے سکول کے لیے وقف کر دیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا گیا۔
پھر کرونا (کورونا) وائرس دنیا پر حملہ آور ہوا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔
سکولوں کو تالے لگ گئے اور ہوائی اڈے بند ہو گئے جس سے امدادی سامان کی ترسیل مزید بے قاعدہ ہو گئی۔
وبا سے اقوام متحدہ کے ثالثوں کی جانب سے جنگ بندی کی لڑکھڑاتی کوششیں بھی رک گئیں۔ ادھر القاعدہ اور داعش دونوں سے وابستہ جہادی گروپوں نے سرکاری فوج اور ایک دوسرے پر حملوں میں تیزی لانا شروع کردی۔
حمسہ نے خود کو اپنے سکول کے لیے وقف کر دیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا گیا۔ (تصویر: یونیسیف)
ان حملوں کے بعد حمسہ جیسے بچے اور ان کے خاندان مزید خطرات میں گھر گئے۔ یونیسف نے گذشتہ جمعے کو اعلان کیا تھا کہ 'ساحل' یعنی برکینا فاسو، مالی اور نائجر کے خطے میں آباد تقریبا 23 لاکھ بچوں کو تحفظ کی ضرورت ہے۔ یہ تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں 80 فیصد سے بھی زیادہ ہے جب کہ مزید 53 لاکھ افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
مالی میں اقوام متحدہ کے مشن کے سربراہ مہمت صالح عنادی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: 'یہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر اپنی زندگی جیتے ہیں۔ وہ امداد پر انحصار کرتے ہیں جو اب ہم فراہم نہیں کر پا رہے۔ یہ کمزور طبقہ ہے کیوں کہ وہاں ریاست کی عملداری نہیں ہے اور اقوام متحدہ بھی مداخلت نہیں کرسکتا اس لیے وہ ایک آسان ہدف بن جاتے ہیں۔'
کرونا کی وبا نے جنگ زدہ علاقوں کو خاص طور پر متاثر کیا ہے اور دنیا بھر میں چند ہی ایسی جگہیں ہوں گی جہاں یہ بحران 'ساحل' خطے سے زیادہ سنگین ہو۔
یہ وسیع خشک اور بیابان خطہ ایک پیچیدہ خانہ جنگی کا مرکز بن چکا ہے جہاں شدت پسند گروہ اور جرائم پیشہ گروپس نہ صرف متعدد سرکاری اور بین الاقوامی افواج سے برسرِ پیکار ہیں بلکہ یہ گروہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھی ہیں۔
مالی میں کووڈ 19 کے صرف 1،400 کیسز سامنے آئے ہیں اور کم سے کم 79 اموات رپورٹ ہوئیں ہیں تاہم لاک ڈاؤن نے ملک کی بے قاعدہ معیشت کو نقصان پہنچایا ہے جس سے بہت سارے خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ لاک ڈاؤن سے ویکسینیشن کی کوششوں اور امداد کی فراہمی میں بھی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
عالمی تنظیم 'ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز' کے مطابق ، شمالی اور وسطی مالی میں دس لاکھ سے زیادہ افراد کو ہنگامی طور پر صحت کی سہولیات کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ معاشی تعطل نے جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کی خواہاں جہادی تنظیموں کے لیے نئے مواقع بھی پیدا کردیئے ہیں۔
'ساحل' خطے میں عدم استحکام کی جڑیں 2011 میں نیٹو فورسز کی حمایت یافتہ جنگ سے ملتی ہیں جب لیبیا کے آمر معمر قذافی کا تختہ الٹ دیا گیا اور صحارئے اعظم میں بربر زبان بولنے والے گروہ نسلی گروہ طوریگس میں بغاوت پھوٹ پڑی۔
برسوں سے سرگرم عمل جہادی عسکریت پسند جلد ہی شمالی علاقوں پر قابض ہونے کے لیے برسرپیکار گروپوں میں داخل ہو گئے جنہوں نے جلد ہی دوسرے تمام گروہوں پر قابو پا لیا۔ غیر ملکی فوج کی مدد سے شدت پسندوں کو شمال سے نکال باہر کر دیا گیا تاہم وہ دوسری جگہوں پر دوبارہ منظم ہوگئے۔
موپتی خطے میں یونیسف کے نمائندے احمد عائدہ کا کہنا ہے: 'ہم 2017 کے بعد سے جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس سے یہ واضح ہے کہ جنگ مرکزی مالی کی طرف پھیل رہی ہے۔ یہاں مسلح گروپوں کے ساتھ ساتھ نسلی ڈیفنس گروپس بھی ہیں۔'
(تصویر: یونیسیف)
القاعدہ سے وابستہ جماعت النصر الاسلام والمسلمین (جے ایم آئی این) اور داعش کی علاقائی شاخ دونوں ہی 'ساحل' خطے کے کچھ حصوں پر قابض ہیں جو عسکریت پسندوں کی بھرتی کے لیے تو ایک دوسرے سے لڑتے ہیں لیکن بعض اوقات حکومتوں اور مغربی اور افریقی افواج کے ہزاروں فوجیوں کے خلاف حملوں میں مبینہ طور پر ایک دوسرے کا ساتھ بھی دیتے ہیں۔
برسلز میں قائم ایک کرائسس گروپ نے اپنی رپورٹ میں کہا: 'ایسا لگتا ہے کہ کرونا وائرس ان پھرتیلے عسکریت پسندوں کو مزید خطرناک بنا دے گا کیوں کہ وبا سے مقامی حکومتیں اور افواج مزید سست اور کمزور ہو جائیں گی۔'
گذشتہ ماہ جب کرونا کی وبا زور پکڑ رہی تھی نامعلوم مسلح گروہوں نے بامبا میں ملیان کے ایک فوجی اڈے پر حملہ کیا جس میں 25 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ ایک رہائشی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: 'ہم نے موقع پر 23 افراد کی لاشیں دیکھی تھیں۔'
بامبا میں حملے کے چند روز بعد موٹرسائیکلوں پر سوار عسکریت پسندوں نے بانڈیاگرا سے 60 میل دور ایک گاؤں پر حملہ کر کے ایک درجن دیہاتیوں کو ہلاک کردیا۔
علاقے کے ایک عہدیدار علی ڈولو نے کہا: 'جو چیز ہمیں مار رہی ہے وہ کرونا وائرس نہیں بلکہ جنگ ہے۔'
ماہرین کو یہ بھی تشویش ہے کہ القاعدہ اور داعش کرونا کی وبا سے پیدا ہونے والی معاشی بدحالی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے تاکہ بھرتی کی کوششوں کو آگے بڑھایا جاسکے۔
دا ہیگ میں قائم 'انٹرنیشنل سینٹر فار کاؤنٹر ٹیررازم' کی ایک رپورٹ کے مطابق: یہ دونوں (دہشت گرد گروہ) عالمی سطح پر کرونا کی وبا کے پھیلاؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی کے حوالے سے کافی حد تک آگاہ ہیں اور وہ اس صورت حال کو شدت پسندوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے استعمال کر سکیں گے۔'
تشدد کی وجہ سے عالمی امدادی گروپوں نے 'ساحل' خطے میں کئی سالوں سے اپنی نقل و حرکت کو محدود کر رکھا ہے کیوں کہ وہ جہادی اور جرائم پیشہ افراد سے گھرے ان دور دراز علاقوں میں خوراک اور ادو یات فراہم کرنے کے لیے اکثر اغوا برائے تاوان کا خطرہ مول لیتے ہیں۔
اس پیچیدہ صورت حال میں اس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب سرکاری فوج اور مسلح گروہ مقامی لوگوں کا اعتماد جیتنے کے لیے اکثر انہیں امداد فراہم کرتے ہیں۔
لیکن ایک گروپ کی مدد قبول کرنا آپ کو دوسرے گروپ کا ہدف بنا سکتا ہے۔ اس سے دور دراز کے علاقوں میں خسرہ سے بچاؤ کے قطرے پلانے جیسی خدمات کی فراہمی ایک بہت بڑا سیاسی اور لاجسٹک چیلنج بن گیا ہے۔
یہ امدادی کام اب اور بھی اذیت ناک بن گئے ہیں۔ نائجر میں تقریبا 19 فیصد ہیلتھ ورکرز میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جس نے دور دراز دیہاتوں میں لوگوں تک پہنچنے کی ان کی صلاحیت کو مزید کم کیا ہے۔
نائجر میں یونیسف کی نمائندہ فیلیسٹی ٹچی بنڈٹ نے کہا: 'ہم ان غیر محفوظ علاقوں تک انسانی امداد کی فراہمی کے لیے نہیں جا سکتے۔'
نائجر میں کرونا وائرس کے کم و بیش 1000 کیسز اور کم از کم 76 اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔
ہیلتھ ورکرز میں انفیکشن کی شرح نے بہت سے خاندانوں کو صحت کی دیکھ بھال اور ویکسین حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی کی ہے۔
یونیسف کی نمائندہ نے مزید کہا: 'صحت کی سہولیات کے مراکز کرونا کے ہاٹ سپاٹ بن رہے ہیں۔ کووڈ 19 نے موجودہ خطرات کو بڑھا دیا ہے جس نے پہلے ہی دباؤ کا سامنا کرنے والی سروسز پر اضافی دباؤ ڈال دیا ہے۔'
باماکو کے ایک صحافی عبد السلام حما نے کہا مالی کے شہری کرونا وائرس کے خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کس طرح ٹمبکٹو میں ایک خبر رساں ادارے کے نمائندوں نے سرجیکل ماسک پہنے تو لوگ ان پر ہنس پڑے۔
انہوں نے کہا: 'لوگ اپنے طرز زندگی تبدیل نہیں کر رہے۔ وہ اپنے برتاؤ میں بھی تبدیلی نہیں لانا چاہتے۔'
'وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی خطرناک چیز نہیں ہے۔ ہمیں کرونا وائرس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یہ ایک یورپی بیماری ہے۔'
اس صورت حال میں امدادی تنظیموں نے کرونا کاممکنہ نشانہ بننے والے لوگوں میں اس طرح کی غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے لاک ڈاؤن اقدامات کے تحت علاقوں میں پہلے ہی سے موجود افراد کی تلاش شروع کردی ہے۔
انہوں نے پناہ گزین کیمپوں کے رہائشیوں کو کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مؤثر طریقے سے ہاتھ دھونے اور دوسروں سے سماجی دوری برقرار رکھنے کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی تربیت دینا شروع کردی ہے۔
امدادی عہدیدار خوش ہیں کہ حمسہ، جو اب 13 سال کی ہیں اور جو صرف ایک سال قبل بمشکل ہی بول سکتی تھیں، ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے ساتھیوں کو صحت مند رہنے اور وبائی بیماری کے پھیلاؤ سے بچنے میں مدد دینے کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے خود حمسہ کو صدمے سے نکلنے میں مدد دی۔
ایڈا نے کہا: وہ ان نوجوانوں میں سے ایک ہیں جو کووڈ 19 کے بارے میں دوسروں کو احساس دلا رہی ہیں۔ وہ گھر گھر یا خیموں خیموں تک پہنچ رہی ہیں۔'
© The Independent