کینیا کی خلائی ایجنسی کے مطابق پیر کو جنوبی کینیا کے مکوکو گاؤں میں ایک بڑا دھاتی کڑا گر کر تباہ ہو گیا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ خلا سے گرا ہوا ملبہ ہے۔
30 دسمبر کو مقامی وقت کے مطابق تقریباً شام بجے گاؤں والوں کو ایک ’سرخ اور گرم‘ کڑا ملا، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ یہ راکٹ کے پرزے ہیں۔
ایجنسی نے کہا کہ اس نے ’علاقے کو حصار میں لے کر ملبے کو اٹھا لیا۔‘
ایجنسی نے ایک بیان میں کہا: ’ایجنسی وضاحت کرنا چاہتی ہے کہ یہ شے، جو دھات کا کڑا ہے اور جس کا قطر 2.5 میٹر اور وزن تقریباً 500 کلوگرام ہے، خلا میں موجود کسی چیز کا ٹکڑا ہے۔
’ابتدائی جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ گرنے والی شے ایک لانچ وہیکل کا الگ کرنے والا کڑا ہے۔‘
راکٹ کے ملبے کو زمین کی فضا میں دوبارہ داخلے کے دوران جلنے یا غیر آباد علاقوں جیسا کہ سمندروں میں گرنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔
ایجنسی نے کہا: خلا میں ملبے کے بہت سے ٹکڑے موجود ہیں اور 100 فیصد یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سا کہاں گرے گا۔ تاہم زیادہ تر ملبہ ماحول میں جل جاتا ہے اور اس طرح کے واقعات انتہائی نایاب ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’کینیا سپیس ایجنسی کے حکام موقعے پر پہنچے اور ایک ملٹی ایجنسی ٹیم اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر علاقے کو محفوظ بنایا اور ملبہ برآمد کیا۔
’خلائی کچرا ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے اور اگرچہ یہ ایک منفرد واقعہ ہو سکتا ہے لیکن خطرہ حقیقی ہے۔
’خلائی ملبے کے کچھ ٹکڑے کاروں یا حتیٰ کہ بسوں جتنے بڑے ہو سکتے ہیں، اور اگر وہ گر جائیں تو جائیداد اور انسانی جانوں کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
’ہر کسی کو اس کے بارے میں آگاہی ہونی چاہیے اور کسی بھی مشکوک چیز کو حکام کو رپورٹ کرنا چاہیے۔‘
خلائی امور کے ماہر جوناتھن میکڈوول نے، جو راکٹ کی حرکات پر نظر رکھتے ہیں، کہا کہ کینیا کی ایجنسی ملبے کے ماخذ کے بارے میں ’غلط‘ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ یہ ملبہ کسی سپیس شٹل کے راکٹ بوسٹر سے نہیں آ سکتا۔
ہارورڈ سمتھسونین سینٹر فار ایسٹروفزکس کے اس محقق نے سوشل میڈیا پر کہا، ’یہ بالکل ناممکن ہے۔ ایس آر بی کبھی مدار تک نہیں پہنچے اور 2011 کے بعد سے ’آسمان میں‘ نہیں۔‘
انہوں نے انسائیڈ آؤٹر سپیس کو بتایا، ’مجھے یقین نہیں کہ یہ کسی ہوائی جہاز سے نہیں آیا۔ دوبارہ زمین کی فضا میں داخل کے باعث پیدا ہونے والی حرارت کے واضح شواہد نظر نہیں آ رہے۔‘
© The Independent