خیبرپختونخوا کے ضلع وزیرستان کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے ضلع باجوڑ میں بھی تھری جی انٹرنیٹ سروس کو بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سابق قبائلی علاقوں میں انٹرنٹ اور موبائل سگنلز کافی عرصے سے بند تھے اور علاقہ مکین متعدد بار اس کی بحالی کے لیے آواز اٹھا چکے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا واقعی ان علاقوں میں انٹرنٹ سروس بحال ہوگئی ہے یا یہ صرف اعلانات تک ہی محدود ہے۔
ضلع باجوڑ میں تھری جی انٹرنیٹ سروس کی بحالی کا اعلان وزیراعظم عمران خان نے 15 مارچ کو اپنے حالیہ دورہ باجوڑ کے موقع پر کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ضلع باجوڑ کے عوام کے لیے تھری جی سروس کا آغاز آج سے
مقامی صحافی بلال یاسر نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کے اعلان کے بعد ایک دن تک یوفون اور زونگ کی انٹرنیٹ سروسز بحال رہیں لیکن اب وہ دوبارہ بند ہوگئی ہیں۔
بلال کے مطابق مقامی لوگ بھی خوش تھے کہ ان کا یہ مطالبہ مان لیا گیا لیکن سروس کے دوبارہ بند ہونے کی وجہ سے لوگ حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ باجوڑ میں انٹرنٹ سروس گزشتہ آٹھ سالوں سے بند ہے۔
بلال کے مطابق اس کی وجہ باجوڑ سے متصل پاک افغان بارڈر ہے، جہاں پر سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انٹرنیٹ سروس کو بند کرنا قانون نافذ کرنے والے ادارے ضروری سمجھتے ہیں۔
باجوڑ کے رہائشی شاہ ولی خان ماموند نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عمران خان کے اعلان کے بعد انہوں نے تھری جی سروس کے لیے انٹرنیٹ پیکج ایکٹیویٹ کیا، جس نے بس ایک دو دن ہی کام کیا اور اس کے بعد سروس دوبارہ بند ہوگئی۔
ولی خان کے مطابق ’ہمیں نہیں معلوم، حکومت اعلانات تو کر رہی ہے لیکن سروس بحال نہیں ہو رہی ہے۔ پہلے وزیراعظم نے اعلان کیا اور ابھی وزیراعلیٰ نے دوبارہ اعلان کیا ہے لیکن سروس ابھی تک بحال نہیں ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ آج کل کے زمانے میں ایک ضرورت بن گئی ہے، حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔‘
’ابھی تک انٹرنیٹ بحالی کا اجازت نامہ نہیں ملا‘
انٹرنیٹ سروس کی بحالی کے حوالے سے جب باجوڑ میں ٹیلی نار فرنچائز کے مینیجر محمد طاہر سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ’عمران خان کے اعلان کے بعد انٹرنیٹ سروس شروع تو ہوگئی تھی لیکن اس کی بحالی درست طریقہ کار کے مطابق نہیں ہوئی تھی کیونکہ مجاز اتھارٹی پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ہے اور وہی اس بارے میں اجازت نامہ جاری کریں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے لیکن ابھی تک انہیں اجازت نامہ موصول نہیں ہوا ہے، تاہم سروس کی بحالی کے حوالے سے کام جاری ہے۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا سرحدی علاقوں پر سکیورٹی کہ وجہ سے سگنلز بند کرنے سے انٹرنیٹ پر کوئی فرق پڑتا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے بارڈر کے علاقوں میں پہلے ہی موبائل سگنلز کی رینج کم ہے اور اس سے رہائشی علاقے متاثر نہیں ہوتے۔
محمد طاہر کا مزید کہنا تھا، ‘اگر انٹرنیٹ بحال بھی ہو جائے تو رہائشی علاقوں میں تو صارفین کو سروس کی درست فراہمی ہوسکتی ہے، لیکن بارڈر پر سگنلز کی رینج اُسی طرح کم ہوگی، جس سے رہائشی علاقے متاثر نہیں ہوں گے۔‘
وزیرستان میں کیا صورتحال ہے؟
وزیرستان کے رہائشی رسول داوڑ پشاورمیں رہائش پذیر ہیں، لیکن ان کے اہلخانہ وزیرستان میں ہی ہیں، جب بھی وہ اپنے گھر والوں سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سگنلز کم ہونے کی وجہ سے رابطہ ہونے میں بہت وقت لگتا ہے اور جب کال مل بھی جائے تو بات کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کی انٹرنیٹ بحالی کے دعوے صرف میڈیا اعلانات تک محدود ہیں، ابھی تک انٹرنیٹ مکمل طور پر بحال نہیں ہوا ہے، ’جب موبائل سگنلز اتنے کم ہوں کہ کال کنیکٹ بھی نہیں ہوسکے تو انٹرنیٹ کس طرح کام کرے گا۔‘
یہ بھی پڑھیں: ’ہمیں 3G انٹرنیٹ دے دیں، حقوق ہم خود حاصل کرلیں گے‘
وزیرستان کے رہائشی اسد اللہ شاہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا انٹرنیٹ بحال ہوا ہے تو اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’آپ خوش قسمت ہیں کہ اپ کی کال مل گئی ہے، کیونکہ انہیں کال کرنے کے لیے 30 سے 40 بار کوشش کرنے پڑتی ہے۔‘
اسد کے مطابق ’انٹرنیٹ سروس تو بالکل نہیں ہے لیکن سگنلز نے تھوڑا بہت کام شروع کردیا ہے، تاہم کال ملانے میں مشکلات درپیش ہیں۔ حکومت کے اعلان کے بعد میران شاہ اور میر علی کے پانچ کلومیٹر کی حدود میں یوفون کے سگنلز کام کررہے ہیں لیکن وہ بھی بہت کمزور ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ میرعلی اور میران شاہ میں تھوڑے بہت موبائل سگنلز کام کر رہے ہیں لیکن وزیرستان کے کچھ علاقوں میں ابھی تک نہ تو سگنلز بحال ہوئے ہیں اور نہ ہی انٹرنیٹ موجود ہے۔
وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر عبدل الناصر سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کا رابطہ نمبر مسلسل بند ملا۔