پاکستان میں کرونا وائرس کی اچانک آمد جہاں بڑی تعداد میں کاروبار کو زبردست نقصان پہنچا ہے وہیں معیشت کے ایک پہلو نے کم از کم تین گنا اضافہ دیکھا ہے اور وہ ہے آن لائن خریداری۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی گذشتہ برس ایک رپورٹ میں سال 2020 میں آن لائن تجارت کے حجم میں ایک ارب ڈالرز سے زیادہ اضافے کی توقع تھی لیکن کرونا (کورونا) کی آمد کے بعد یہ اندازوں کے مطابق کئی گنا بڑھی ہے۔
پاکستان میں سال 2018 میں ای کامرس کا حجم 40 ارب ڈالرز تھا جو کہ کئی ماہرین کے مطابق گنجائش سے کافی کم تھا۔
شہروں میں جو لوگ انٹرنیٹ اور سمارٹ فون رکھتے ہیں ان کی اب کوشش یہی ہوتی ہے کہ دودھ دہی اور انڈوں سے لے کر ادویات، پھل اور سبزیاں تک آن لائن خرید لیں ہیں۔ اسے سہل اور محفوظ سمجھا جاتا ہے اس لیے اس پر انحصار بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں جہاں اکثریت اب بھی کیش پر کاروبار کو ترجیح دیتی ہے مارچ سے اس ضمن میں کئی نئے کاروبار بھی کھل گئے ہیں۔
راولپنڈی اور اسلام آباد کے مکینوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک آن لائن کریانے کی دکان ’کٹوی ڈاٹ کام‘ کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں صارفین کی جانب سے ڈیمانڈ میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ نئے حالات میں ان کا ایڈوائزری بورڈ رسد اور طلب کے مسائل حل کرنے کے لیے نئی حکمت عملی پر غور کر رہا ہے۔
سیف اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک سال پہلے جب انہوں نے آن لائن کریانے کی دکان کا آغاز کیا تھا تو تب اس کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی تھی تاہم ان کے مطابق تقریباً پچھلے تین مہینوں سے صارفین سبزی، پھل اور روزمرہ ضرورت کی تمام چیزوں کا آرڈر کرنے لگے ہیں۔
اس حقیقت کی نشاندہی گوگل سرچ انجن نے پاکستان سے متعلق اپنی ایک حالیہ جائزہ رپورٹ میں بھی کی ہے جس کے مطابق صارفین کی ترجیحات اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف کاروبار اور شعبے اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
گوگل کی یہ رپورٹ پاکستان میں صارفین کی جانب سے اس کے سرچ انجن کے ذریعے تلاش کی جانے والی باتیں واضح ہوتی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 138 فیصد اضافے کے ساتھ ان پاکستانی صارفین نے نزدیک ترین سروس کو تلاش کیا ہے تاکہ انہیں سامان ملنے کا زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔
اس رپورٹ کے مطابق 81 فیصد پاکستانی آن لائن خریداری سے قبل اس چیز کی سرچ کرتے ہیں۔ ان میں 80 فیصد اس کے بارے میں سرچ اور پھر اس کی ویڈیو دیکھتے ہیں۔ کم از کم 55 فیصد کا کہنا تھا کہ کسی بھی مصنوعات کے بارے میں پہلے گوگل سرچ کرتے ہیں اور پھر یوٹیوب پر اس کی ویڈیو تلاش کرتے ہیں۔
اس سروے کے مطابق پاکستان میں 89 فیصد صارف خواتین ملبوسات آرڈر، 82 فیصد سمارٹ فون اور 72 فیصد سکن کئیر کا سامان آن لائن خریدنے سے پہلے سرچ کرتے ہیں۔
پاکستان کے ایک بڑے آن لائن شاپنگ پورٹل دراز ڈاٹ کام کے مینجنگ ڈائریکٹر احسان سایا نے ایک بیان میں کہا کہ اس غیریقینی صورت حال میں انہوں نے بھی صارفین کے رویوں میں تبدیلی نوٹ کی ہے۔ اشیا ضرورت کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان مصنوعات تک صارفین کی رسائی جاری رکھیں تاکہ وہ سماجی فاصلے برقرار رکھ سکیں۔‘
پشاور میں گھریلو ضرورت کا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے والی مشہور ڈیلیوری سروس ’درئے وڑو‘ کے سربراہ زاہد خان نے بتایا کہ وبا کے بعد انہوں نے زیادہ تر ادویات، سبزیاں اور آن لائن ویب سائٹس کا سامان صارفین تک پہنچایا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران انہیں 30 فیصد زیادہ آرڈر ملے۔
عوامی رائے
انڈپینڈنٹ اردو نے سوشل میڈیا پر عوام کے تاثرات جاننے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں متعدد صارفین نے کہا کہ انہوں نے آن لائن خریداری کا استعمال کرونا وائرس کی وبا کے بعد شروع کیا۔
احسان تجمل کہتے ہیں کہ ’اب خواہ کوئی آن لائن خریداری کے حق میں ہے یا نہیں ہے۔ لیکن جو حالات چل رہے ہیں ان کے تناظر میں بہتر یہی ہے کہ آن لائن خریداری کی عادت اپنا لی جائے ورنہ مسئلے ہوں گے۔‘
سحرش محسن کہتی ہیں کہ ’میں آن لائن خریداری کے حق میں ہوں، خاص کر اس وبا کے ماحول میں۔ میں زیادہ تر آن لائن خریداری کرتی ہوں، یہاں تک کہ میں تو گروسری شاپنگ بھی آن لائن ہی کرتی ہوں۔‘
آن لائن خریداری کے مسائل
جہاں ایک جانب حالات کے پیش نظر پاکستانی عوام کا دارومدار آن لائن خرید و فروخت پر پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے وہیں ایک کثیر تعداد کو مختلف شکایات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
متعدد سوشل میڈیا صارفین نے شکایت کی کہ آج کل مختلف برانڈز متعارف ہو گئے ہیں جن میں بیشتر سادہ لوح عوام کو بےوقوف بنا کر ان سے پیسے بٹورنے میں مصروف ہیں۔ تاہم دوسری جانب کچھ لوگوں نے مشہور برانڈز کو بھی مختلف حوالوں سے تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ای کامرس کو بہتر ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرخ وحید کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں آن لائن خریداری میں اتنے دھوکے نہیں ہوتے جتنے پاکستان میں ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ دھوکے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ جانے مانے سٹورز سے ہی چیزیں آرڈر کریں تو یہ احتمال کم ہو جاتا ہے۔
منیبہ بابر نے کہا کہ انہوں نے 15000 روپے کےملبوسات آن لائن خریدے لیکن اس وقت ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب پارسل سے صرف کٹ پیس برآمد ہوئے۔
جب ان سے پوچھاگیا کہ کیا ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچنے کے بعد وہ دوبارہ آن لائن خریداری کی سہولت استعمال کریں گی۔ تو انہوں نے کہا کہ آن لائن خریداری ترک نہیں کریں گی صرف خود کو ایجوکیٹ کرکے اس کا استعمال محتاط طریقے سے کریں گی۔
ایک اور بڑا مسئلہ آن لائن تجارت کا پاکستان میں یہ رہا ہے کہ تمام ویب سائٹس اور ایپس انگریزی میں ہیں لہذا صرف اردو یا مقامی زبانیں بولنے والے ان سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔
واضح نہیں کہ پاکستان میں آن لائن تجارت پر نظر رکھنے کے لیے کوئی سرکاری سطح پر کوشش ہوئی ہے یا نہیں کیونکہ اگر صارف کا اعتماد کھو دیا گیا تو اس سے پاکستان باقی دنیا سے اس جدید سہولت سے بھی وہ استفادہ نہیں کر سکے گا جو باقی کر رہے ہیں۔