سفر سے پہلے طبیعت بے چین رہتی ہے۔ صبح کرنا ہوتا ہے تو دل کہتا ہے بابا رات کو ہی یہ مرنا مکا، جب پہنچے گا تو کم از کم سونا سکون والا تو نصیب ہو گا۔
کبھی اکیلا ہوں تو رات کو نکل جاتا ہوں، کبھی وہی مقررہ وقت پہ، لیکن سفری اینگزائٹی ختم تبھی ہوتی ہے جب ادھر پہنچ جاتا ہوں جہاں کا سوچا ہوتا ہے۔
اس بار بھی صبح نکلنے کا سوچا کہ آرام سے پانچ چھ بجے اٹھ کر سات سوا سات نکل جاؤں گا۔ ٹھنڈا ٹائم ہو گا، پرانی گاڑی ہے، اے سی بھی کم چلے گا اور رش بھی اتنا نہیں ملے گا۔ ٹھیک ہو گیا۔ سوچ کے بابا جی سو گئے رات دس بجے۔ پچھلے ایک مہینے ڈیوٹی ایسی تھی کہ نو بجے سونے کی روٹین بن ہی گئی تھی، کھٹاک پانچ بجے صبح آنکھ کھل جاتی تھی۔
اسی امید پہ سونے لیٹا، پہلے تو وہی سفری کوفت، خیر دس بجے لگ گئی آنکھ۔ کھلی ہے تو ابھی رات کا اندھیرا تھا۔ گھڑی دیکھتا ہوں تو عمل دو بجے کا ہے۔ اب لیٹا ہوں، کروٹیں بدل رہا ہوں، نیند غائب۔ تین بجے نکلا بستر سے، نہایا، تینوں چارجر، ان کی سہولت کار بجلی کی تار، بالوں کا برش، پرفیوم، آخری لمحات کا سارا سامان پیک کیا، دو تین پاجامے رکھے اور چار بجے بھائی سڑک پہ تھا، نور پیر دے ویہلے۔
گھر سے نکلا تو موسم بہترین تھا۔ جون کی صبح ٹھنڈی ہوا مل جائے تو اور کیا چاہئیے۔ اپنے فیصلے پہ خود کو شاباشی دی اور راستے میں پٹرول بھروانے رکا۔ جو وہاں سے آگے نکلتا ہوں تو سڑک گیلی۔ مسلسل گیلی، یعنی بارش ہوئی تھی اور پندرہ بیس منٹ پہلے ہی رکی تھی۔ چلتا گیا۔ اب موٹر وے آ گیا۔
لو جی ایک کلومیٹر بعد بارش شروع ہو گئی۔ اندھیرا فل ٹائم، اوپر سے بارش، رات کی بارش سفر میں تنگ ہی کرتی ہے، سو کر رہی تھی۔ سوچا کوئی مسئلہ نہیں تھوڑی دیر میں پو پھٹے گی، روشنی ہو جائے گی، دن میں جتنا مرضی پانی برسا لے آسمان، کوئی زیادہ مسئلہ نئیں ہوتا گاڑی چلانے میں۔ یہی سوچتے سوچتے تھوڑی کم سپیڈ میں چلتا رہا۔
اسی کت خانے میں پانچ بج گئے۔ بارش اب شدید والی تھی، ہوائیں کہتی تھیں کہ گاڑی سیدھی کیوں چلاتا ہے، بجلی بار بار ایسے چمکتی تھی جیسے صبح ہونے سے پہلے پہلے سارا زور لگا دینا ہے، ونڈ سکرین کا وائپر اب پانی کا مقابلہ کرنے سے تھک رہا تھا، سڑک پہ نظر آنا بند ہو چکا تھا، پو کے علاوہ سب کچھ پھٹ چکا تھا، صبح تھی کہ ہو کر نہیں دے رہی، گاڑی روکوں تو کوئی پیچھے سے ٹھوک دے گا، نہ روکوں تو چلاؤں کیسے اس مصیبت خانے موسم میں کہ جس نے ساڑھے پانچ بجے بھی سورج کو چھپایا ہوا۔لو جی کوئی دو گھنٹے ایسی مہان ذلالت ہوئی کہ نور پیر کے ویہلے والے کانسیپٹ پر میں نظر ثانی کرنا شروع ہو گیا۔ چھ بجے ہیں تو کچھ روشنی شروع ہوئی ہے، ساڑھے چھ تک اتنا آگے نکل آیا کہ وہ ساری نحوست پیچھے رہ گئی۔ اس کے بعد ڈیڑھ گھنٹے کا سفر ایسا ہموار تھا جیسے مرزا اطہر بیگ کے ناولوں میں آخری ڈیڑھ سو صفحے ہوتے ہیں۔ سارے رولے ختم ہو چکے ہوتے ہیں اور بس بندہ روانی سے بہتا چلا جاتا ہے۔
روٹین سے شدید بے زاری تھی۔ اوما کی مہربانی کہ اس نے زیادہ روکا نہیں، سمجھتی ہے کہ بندہ بندھا ہوا ہے، کوئی نئیں اللہ کی امان ہو، جائے جدھر بھی جاتا ہے، تو نکل آیا۔ لیکن ان ڈھائی گھنٹوں میں کئی بار میں نے اپنے بستر کا آرام سوچا، یہ خیال کیا کہ اس وقت کیسا مزے کا موسم ہو گا گھر میں، پرندوں کے بولنے کی آوازیں آ رہی ہوں گی، گھاس پہ شبنم کی خوشبو اٹھ رہی ہو گی، ہوا بھی ابھی گرم نہیں ہوئی ہو گی۔ یہ بھی سوچا کہ ایسا کیا کیڑا تھا جو خواہ مخواہ نکل آیا، لیکن بارش کے بعد جب روشنی ہو گئی، سڑک نظر آنے لگی، رفتار تیز کر لی تو نحوست ساری بھی ختم ہو گئی۔
پھر دل کرتا تھا کہ خود اپنی کمر پہ شاباش دوں کہ جوانا اچھا کیا ہے جو نکلا ہے، روٹین نے تجھے مار دینا تھا۔ تو زندگی آج کل عین ایسی ہم سب کی ہوئی وی ہے۔ گھنٹہ پہلے ہم کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں، گھنٹے بعد لگتا ہے کہ پچھلا گھنٹہ ضائع کیا اور سارے دن بعد رات کو بھی گھنٹہ نتیجہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب تھوڑی سی باریک بات ہے۔ کیا یہ وبا نے جو دنیا بھر کی ایسی تیسی پھیری ہے اس میں کوئی ہمارا اختیار تھا؟ نہیں تھا۔ کیا اس وقت جو ہم گھروں میں عمرقید گزارنے پہ مجبور ہیں، یہ اپنی مرضی سے تھی؟ نہیں تھی۔ کیا اس وقت اکثر لوگوں کی تنخواہوں میں جو کٹ لگ رہا ہے اس میں اپنی ذاتی کوئی نااہلی تھی؟ نہیں تھی (ذاتی ناہلی پہ صرف ایک شکل مجسم دکھائی دیتی ہے، اس لفظ کی بھرپور کلین شیو تصویر، سمجھ تو آپ گئے ہوں گے)۔ گھروں میں جو ٹینشنیں بڑھ رہی ہیں اس میں کوئی خود کا قصور ہے؟ نہیں ہے، ساتھ پڑا تو برتن بجتا ہے، آپ پھر بندے ہیں!
تو کیا کریں؟ دیکھیں آپشن کوئی نہیں ہے بس گاڑی چلانی ہے۔ وہی موٹر وے ہے، گاڑی روکتے ہیں تو پیچھے سے لگتی ہے، چلاتے ہیں تو نظر کچھ نہیں آتا، آندھی بھی ہے، بارش بھی ہے، طوفان ہے اور بجلی بھی ہے، چلنا مگر ختم نہیں ہو سکتا، رفتار دھیمی کرنی پڑے گی اور عین میری طرح گالیاں شالیاں بکتے گاڑی چلاتے رہنا ہے۔ اس امید پر کہ بارش کبھی نہ کبھی رکے گی، طوفان کبھی نہ کبھی تھمے گا، صبح کبھی نہ کبھی ہوئے گی، ہموار سڑک نے بھی آ ہی جانا ہے، شرط مگر چلنے کی ہے اور چلتے رہنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ فوکس صرف اگلے دو منٹ پہ رکھیں۔
جب آپ ایمرجنسی میں ہوتے ہیں تو لمبی سوچوں کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا۔ ویسے تو وہ پٹا ہوا شعر بھی تھا کہ سامان برسوں کا ہے اور پل کی خبر نہیں ہے لیکن آج کل واقعی میں چل بھی یہی رہا ہے۔ ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ ہم زندگی میں کبھی بچت کر سکیں گے؟ کیا دس سال بعد مجھے فلانی بیماری لگ جائے گی؟ آج تک زندگی نے مجھے کیا دیا؟ کیا میں کرونا سے بچ سکوں گا؟ کیا ساری زندگی ہم منہ پہ چھکو چڑھائے گزار دیں گے؟ کیا ہماری اگلی نسل کے کان اس منحوس ماسک کی وجہ سے باہر کو نکلے ہوں گے؟ جتنا آخری سوال بے کار ہے اتنے ہی اس وقت پہلے پانچ بلکہ ان کے علاوہ والے پانچ سو بھی ہیں۔ اس وقت موجود لمحے ڈھنگ سے گزار لینے کے علاوہ کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔
پو پھٹے گی، بادل چھٹیں گے، منزل آئے گی لیکن کب؟ یہی تو سوچنا نہیں ہے!