جنوبی وزیرستان میں جب ملٹری آپریشن کے بعد آرمی نے اعلان کیا کہ شدت پسندوں سے پاک کردیا گیا ہے اور کلئیرنس دی کہ لوگ اب واپس اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں تو یہ ایسا اعلان تھا جس نے لوگوں کو ان کی تمام تر تکالیف بھلا دی تھیں اور ایک ایسی خوشی انہیں دی تھی جس کی مثال نہیں ملتی۔
لوگ اس ملٹری آپریشن میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کو بھی بھول گئے کیونکہ اپنے علاقے کی خوشبو اور اپنی مٹی سے پیار کے لیے وہ ترس گئے تھے۔
نقل مکانی کے ان چند سالوں میں وزیرستان کے لوگوں نے انتہائی تکلیف اور مشکلات کا سامنا کیا یہاں تک کہ ایک کرائے کے گھر میں چھ ،چھ فیملیاں رہتی تھی اور نہ روزگار نہ سرو سامان، بالکل بے یارو مددگار ۔
نہ سکولوں میں بچوں کو ایڈمیشن ملتا تھا نہ کرائے کے گھر کوئی دیتا تھا، نہ کوئی وزیرستان کے لوگوں پر بھروسہ کرتا تھا۔
یہاں تک کہ چیک پوسٹ پر بھی ان کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ۔غرض ایسی مشکلات جو اگر بیان کروں تو بات لمبی ہوتی جائے گی مشکلات ختم نہ ہوں گی۔
جو ہونا تھا، جوسہنا تھا، وہ ہوگیا مگر اپنے علاقے میں واپسی کی ایک عجیب خوشی تھی۔
ستم تب ہوا جب یہ خوشی بھی زیادہ دیر تک قائم نہ رہی اور مختلف علاقوں میں لینڈ مائنز (بارودی سرنگیں) پھٹنے کے واقعات رونما ہونا شروع ہو گئے اور جس میں بچے ،عورتیں ،مرد، اور جانور شکار ہوتے رہے۔
لیکن زیادہ تعداد میں بچے ہی ان مائنز کے شکار ہوئے جن میں زیادہ تعداد ان کی ہے جو بکریاں چرایا کرتے تھے۔
لینڈ مائنز پھٹنے کے واقعات ہوتے رہے اور مختلف این جی اوز اور آرمی کی مدد سے لینڈ مائنز کے شکار لوگوں کا علاج بھی ہوتا رہا۔
لوگوں نے ان مائنز کی صفائی کے لیے چیخنا چلانا شروع کیا مگر حالات جوں کے توں ہیں اور اب تک لینڈ مائنز پھٹنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
چار جولائی کو جنوبی وزیرستان کے علاقے لالے زئی گاؤں میں ایک چہارم کلاس کا طالب علم حسین لینڈ مائنز کا شکار ہوا ۔
حسین مچھی خیل قوم سے تعلق رکھتا تھا اور وہ ڈیرہ اسماعیل خان میں پڑھائی کے لیے اپنے ماموں کے گھر رہتا تھا ۔
حسین کرونا وبا کی وجہ سے سکولوں کی چھٹیوں میں وزیرستان گیا تھا۔ وہ چار جولائی کو دن 12 بجے اس وقت لینڈ مائنز کا شکار ہوا جب وہ بکریاں چرا رہا تھا اور اس کو لگنے والے زخم اتنے شدید تھے کہ وہ موقعے پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
گھر والوں نے حسین کی تصاویر لینے سے انکار کر دیا تھا ۔
حسین کی حالت اتنی خراب تھی، چہرہ اتنا بگڑا ہوا تھا کہ پہچاننے کے قابل نہ تھا۔ گھر والوں نے اس کو جلدی دفنا دیا ۔
ذرائع کے مطابق حسین کی والدہ کی چیخیں اور ان کی پکار زمین ہلا رہی تھی۔
حسین کے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں جن میں حسین کا نمبر تیسرا تھا۔ اس کا بڑا بھائی ایکسویٹر کا ڈرائیور تھا جس کو کبھی کام مل جاتا تھا تو کبھی نہیں، حسین کے والد قطر میں مسافری کی زندگی گزار رہے ہیں۔
حسین کے گھر کی مالی حالت انتہائی خراب ہے اور حسین کے والد جو قطر میں ہیں ان کو اپنے بچے کے بارے میں آج معلوم ہو گیا۔
اس سے پہلے کوئی ان کو بتانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ایک طرف مسافری، گھر سے دوری، تو دوسری طرف بچے کے چلے جانے کی خبر!
وہ بچہ جس کو پڑھا کر کافی ارمان باندھے گئے تھے جس کو ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے اور حسین خود بھی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا مگر افسوس کہ اس کا یہ خواب ایک خواب ہی رہا ۔حسین کرکٹ کا شوقین بھی تھا۔
وزیرستان میں صحت کے حوالے سے لوگوں کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور علاج معالجے کے لیے دور دراز جیسے ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک ،پشارو ،رزمک ،وغیرہ جانا پڑتا ہے۔
ان مشکلات کو دیکھ کر وزیرستان کے ہر بچے اور بچی کی یہی خواہش ہوتی ہیں کہ وہ ڈاکٹر بنے اور اپنے علاقے کے لوگوں کی وہ مشکلات جن کو وہ برداشت کر رہے ہیں انہیں دور کریں، مگر وہ خود مائینز کا شکار ہو کر فنا ہو جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیرستان میں ایسے واقعات ہمیشہ رونما ہوتے ہیں مگر آخر کب تک؟ کیا یہاں کے لوگ صرف اپنے بچوں کی قربانیاں دینے کے لیے بچے پیدا کرتے ہیں؟
جب ان کے بچے ننے بیج سے کونپل کی طرح بڑھنا شروع ہوتے ہیں اور جب ان پہ بہار کا موسم قریب ہوتا ہے اس سے پہلے ہی ان پر خزاں آ جاتی ہے اور وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔
ان ماؤں کی یہ چیخ و پکار، یہ فریاد، یہ بچوں کے گوشت کے لوتھڑے جس کا وہ سامنا کر رہی ہوتی ہیں کیا عرش ان سے نہیں ہلے گا؟
ان جیسے ہزاروں واقعات رونما ہوتے ہو چکے ہیں۔ جو بچے لینڈ مائنز کا شکار ہوتے ہیں ان میں سے کچھ تو دنیا سے ہی چلے جاتے ہیں لیکن جو لینڈ مائنز کا شکار ہو کر معذور ہو جاتے ہیں کیا صرف ان کا علاج اور مصنوعی اعضا لگا دینا ہی بہت کافی ہے؟
کیا مصنوعی اعضا سے ہی ان کے زخم بھر جاتے ہیں؟ کیا یہ معذور بچے یا بچیاں معاشرے میں وہ زندگی گزار سکتے ہیں جو کہ دوسرے نارمل لوگ گزارتے ہیں؟
کیا کوئی اپنی بیٹی کی شادی ایک معذور بچے سے کروانے کو تیار ہوتا ہے؟ کیا کوئی معذور بچی کو اپنی بہو کی حیثیت سے قبول کرے گا؟
ماں باپ زندہ ہوں چاہے جیسے بھی ہوں، وہ اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں مگر کب تک؟ ماں باپ کے بعد کون ان معذوروں کا بوجھ برداشت کرے گا ؟
یہ وہ سوال ہیں جن پر حکومت کو اور آرمی کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
کیوں کہ اگر انہی معذور لوگوں کو سرکاری نوکریاں دے دی جائیں یا ان کو کلاس فور پوزیشن پر ہی بھرتی کر لیا جائے تو کم سے کم یہ معاشرے میں اپنا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور معاشرہ بھی انہیں قبول کرے گا۔
اس طریقے سے یہ لوگ شاید بہتر طور پر ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کریں اور ان کا احساس محرومی، احساس خوشی میں تبدیل ہو سکے۔
وہ بحران جو ایسے واقعات کی وجہ سے رونما ہو رہا ہے اس کی تلافی تو کسی طور ممکن نہیں لیکن لوگوں میں پھیلی ہوئی مایوسی ختم کرنے کا یہ طریقہ شاید کام کر جائے۔