لگ تو ایسا رہا ہے کہ اس وقت اگر کوئی ٹیم کرکٹ ورلڈ کپ کی تیاری کر رہی ہے تو وہ آسٹریلیا ہے کیونکہ ان مقابلوں سے قبل ہی ’فیورٹ‘ سمجھی جانے والی عالمی نمبر ایک بھارت کی ٹیم کو اُسی کی سرزمین پر ہرانے کے بعد اس نے پاکستان کو بھی ون ڈے سیریز میں شکست دے دی۔
آسٹریلیا نے پاکستان کو بھی اس کے ’ہوم گراؤنڈز‘ پر سیریز کے ابتدائی تینوں میچوں میں اس طرح سے ہرایا، جیسے پاکستان آسٹریلیا کے میدانوں پر کھیل رہا ہو۔
گذشتہ دس سالوں سے پاکستان اپنی ہر ہوم سیریز کے لیے متحدہ عرب امارات کے میدانوں کا استعمال کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں کی کنڈیشنز کا استعمال آسٹریلیا نے بہتر انداز میں کیا ہے۔
اس کا جواب پاکستان ٹیم کے کپتان شعیب ملک تینوں میچوں سے قبل اور بعد میں اس طرح سے دیتے رہے ہیں کہ پاکستان اس سیریز میں اپنی ’بینچ سٹرینتھ‘ کو آزمانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اب جس طرح سے پاکستانی ٹیم تینوں میچز ہاری ہے اس سے ’بینچ سٹرینتھ‘ کا اندازہ آپ خود ہی لگا سکتے ہیں۔
پاکستانی اوپنرز امام الحق اور شان مسعود کو تینوں ہی میچوں میں موقع دیا گیا اور دونوں بلے بازوں نے بالترتیب کُل 63 اور 61 رنز بنائے ہیں۔
جہاں پاکستانی اوپنرز پریشان دکھائی دیے وہیں آسٹریلوی کپتان اور اوپنر ایرون فنچ پہلے دو میچوں میں دو سینچریاں اور تیسرے میچ میں 90 سکور کرنے میں کامیاب رہے۔
حارث سہیل نے سیریز کا آغاز تو شاندار سینچری سے کیا لیکن اس کے بعد انھوں نے دیگر دو میچوں میں صرف 35 رنز ہی بنائے جبکہ عمر اکمل جو ایک طویل عرصے بعد پاکستان کے ون ڈے سکواڈ کا حصہ بنے ہیں، ان تینوں میچوں میں صرف سو رنز ہی بنا پائے ہیں۔
خود شعیب ملک کی کارکردگی دیکھی جائے تو انھوں نے بھی تین میچوں میں 102 رنز ہی بنائے ہیں جن میں 60 رنز کی اننگز بھی شامل ہے۔
یہ تو تھی چند بلے بازوں کی کارکردگی اب بولرز کی پرفارمنس کا اندازہ تو اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آسٹریلیا نے دو میچ آٹھ، آٹھ وکٹوں سے جیتے اور تیسرے میچ میں بھی پاکستانی بولر صرف چھ وکٹیں ہی حاصل کر پائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے اس وقت سینیئر بولر محمد عامر نے ایک ہی میچ کھیلا اور کوئی وکٹ حاصل نہیں کی۔ خیر ان کے بارے میں تو خود کوچ مکی آرتھر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’عامر کی فارم کو لے کر جو سب سے زیادہ فکرمند ہے وہ خود عامر ہی ہیں۔‘
لیگ سپنر یاسر شاہ بالکل بھی فارم میں دکھائی نہیں دیے اور صرف دو وکٹیں ہی لے پائے جبکہ انہی وکٹوں پر آسٹریلوی نوجوان لیگ سپنر زیمپا، جن کا تجربہ یقینی طور پر یاسر شاہ سے بہت کم ہے، ایک ہی میچ میں چار اور کُل پانچ وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ورلڈ کپ کو دیکھتے ہوئے پاکستان ٹیم کی کارکردگی زیادہ پریشان کن اس لیے بھی نہیں ہے کیونکہ ابھی کپتان سرفراز احمد، بابر اعظم، فخر زمان اور محمد حفیظ جیسے بلے بازوں اور حسن علی، شاداب خان کی صورت میں بولروں کی سکواڈ میں واپسی ہونی ہے لیکن اگر ’بینچ سٹرینتھ‘ کی بات کی جائے تو یہ پاکستان کے لیے پریشانی کی بات ضرور ہے۔