اس سے پہلے کہ میں سید علی شاہ گیلانی کے حالیہ خط پر بات کروں میں آپ کو یہ باور کرانا چاہتی ہوں کہ وہ گذشتہ دس برسوں میں زیادہ تر پابند سلاسل رہ چکے ہیں یا گھر میں نظر بند۔ ان دس برسوں میں محال ہی کسی صحافی کو ایسا کوئی موقع میسر ہوا ہے جب ان سے کھل کے بات کرنے کی اجازت ملی ہو۔
گذشتہ برس اگست سے اب ان کے احباب و اقارب بھی ان سے شاید ہی ملے ہوں گے، جب سے بقول گیلانی کشمیر کو ایک بڑی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ حریت، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے کسی نمائندے کو ان سے ملنے نہیں دیا جاتا اور نہ ہی وہ فون پر کسی سے بات کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔
نعمیہ احمد مہجور کا یہ کالم آپ ان کی اپنی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
مسئلہ کشمیر پر گیلانی کا نکتہ نظر آفتاب کی طرح عیاں ہے۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ کشمیر کی راہیں صرف پاکستان سے ملتی ہیں اور الحاق پاکستان کے بغیر کشمیر کا وجود متزلزل ہے۔
ان کا نظریہ صیح ہے یا غلط، اس پر بحث کی جاسکتی ہے مگر اس بات پر شاید ہی بحث کی گنجائش ہو کہ زندگی کے آخری مرحلے پر پہنچ کر وہ تحریک کشمیر کو نقصان پہنچانے کی سعی کریں گے، چاہے پاکستان ان کا ساتھ دے یا نہ دے، بھارت انہیں کسی سے ملنے دے یا نہ دے۔
جب سے گیلانی کا کل جماعتی حریت کانفرنس سے علیحدہ ہونے کے اعلان سے متعلق متنازع خط سامنے آیا ہے اس پر کئی چہ مہ گوئیاں شروع ہوچکی ہیں۔ ایک طرف بزرگ رہنما کی قوت بصیرت اور قوت بصارت سوالیہ نشان بن چکے ہیں تو دوسری طرف کشمیر کے فریقین کی اندرونی سیاسی جوڑ توڑ بھی عوام کے ذہنی ریڈار پر لرزاں ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مستعفی ہونے کا خط خود گیلانی نے نہیں لکھا ہے کیونکہ علالت اور عمر کے باعث وہ اس وقت ایسا فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ دوسرا عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان پر پاکستان کے حالیہ فیصلے سے متعلق ایک اجلاس میں مختلف موقف اختیار کرنے پر حریت کے دھڑوں میں رقابت پیدا ہوئی جو گیلانی کےخط پر منتج ہوئی۔
کچھ سمجھتے ہیں کہ کل جماعتی حریت کانفرنس کی پاکستانی شاخ پر بعض ایسے لوگوں نے قبضہ جمالیا ہے جو ماضی میں گیلانی دھڑے سے خوفزدہ رہے ہیں جبکہ ایک اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ گیلانی کے صاحبزادے ان کے جانشین بننا چاہتے ہیں۔ وہ حالیہ فیصلے کے ذمہ دار ہیں حالانکہ گیلانی کی آڈیو ریکارڈنگ ایک دو سال پرانی ہے جب انہوں نے کل جماعتی حریت کانفرنس سے علیحدہ ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔
بعض باوثوق ذرائع کے مطابق گیلانی دراصل یہ فیصلہ دو سال پہلے اسی وقت کرنا چاہتے تھے جب ان پر حریت کے بعض رہنماؤں کے بارے میں یہ انکشاف ہوا کہ وہ کشمیر میں ان یتیم بچوں سے موٹی رقوم وصول کرتے ہیں جنہیں پاکستان کے پیشہ ور کالجوں میں مفت داخلہ دیا جاتا ہے۔ یہ وہ بچے تھے جن کے والد عسکری تحریک کے دوران ہلاک کیے جاتے ہیں اور سالانہ ایسے سو سے زائد طلبہ پاکستان کے اداروں میں حصول تعلیم کے لیے جاتے تھے۔ جس کا علم آزادی پسند لیڈروں کے سوا کسی کو نہیں تھا حالانکہ بعض رپورٹوں کے مطابق ایڈمیشن ایسے طلبہ کو بھی دیے گئے تھے جن کے والدین سرکاری انتظامیہ میں اچھے عہدوں پر تھے البتہ اس کی کہیں تصدیق نہیں ہو پائی۔
حریت رہنماؤں اور کارکنان میں یہ معاملہ سنگین صورت اختیار کر گیا ہے لیکن اس سے بڑا سنگین الزام پاکستان نواز رہنما کا یہ کہنا ہے کہ کشمیری نوجوانوں کو منشیات فراہم کرکے اس کا عادی بنایا جا رہا ہے۔
میں نے گیلانی کے ایک دیرینہ ساتھی سے جب مفت داخلے کے بارے میں پوچھا تو وہ مسکرا کر بولے ’اگر پاکستان نے ان یتیم بچوں کے لیے حصول تعلیم کا یہ راستہ چنا تھا تو میرے خیال میں یہ بہت ہی عظیم کام کیا ہے۔ بندوق کی بجائے بچوں کے ہاتھ میں قلم آ جائے تو ہماری تقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔‘
سوال یہ ہے کہ یہ خط کس نے لکھا اور اس خط کی عبارت سے کس کو نقصان پہنچا؟ اس کے بعد بہت سارے خطوط کیوں شائع ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک کیوں جاری ہے؟
گیلانی کے اس متنازع خط کے فوراً بعد پولیس کے حوالے سے ایک بیان جاری ہوا کہ گیلانی پاکستان اور پاکستان کی پالیسیوں سے مایوس ہوچکے ہیں اور انہیں احساس ہوگیا ہے کہ اس سے حالات کتنے بگڑ گئے ہیں۔ پولیس کو یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی، یہ بھی ایک بڑا سوال بن چکا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گیلانی کے کشمیر میں حریت کے مقرر کردہ جانشین محمد اشرف صحرائی کو اس خط کے بارے میں کوئی علم نہیں بلکہ عوام کا ایک بڑا طبقہ اس بات پر حیران ہے کہ اس طرح کا اعلان صحرائی کے ذریعے کیوں نہیں کروایا گیا جس کو معتبر اور مستند سمجھا جاتا مگر پھر یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ گیلانی کے گھر میں کسی کو آنے کی اجازت نہیں۔ بلکہ صحرائی کو بھی اپنے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ گیلانی سے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بقول ایک صحافی: ’ہوسکتا ہے کہ گیلانی کے افراد خانہ کی سوچ بدل گئی ہو کیونکہ ان پر بھی تو تحقیقاتی اداروں کی تلواریں لٹکتی ہیں۔ حریت کے بعض رہنماؤں کا اعتدال پسندی میں تبدیل ہونا بھی گیلانی دھڑے کے لیے باعث خفت رہا ہے۔‘ مگر گیلانی کے ایک قریبی رشتے دار نے مجھے کہا کہ ’ہمارے خاندان کا کوئی فرد کیا تحقیقاتی کمیشن کی تفتیش سے بچا ہے۔ ایسا ہم اس وقت کرتے جب ہمیں این آئی اے میں بلایا جاتا تھا۔ جانشینی کی لالچ ہوتی تو کیا اس کا اعلان گیلانی صاحب خود نہیں کرسکتے۔ کشمیری عوام کو بخوبی علم ہے کہ پس پردہ کون سے عناصر ہیں جن کو گیلانی کے موقف سے تضاد ہے اور وہ اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
ظاہر ہے کہ کل جماعتی حریت کانفرنس محض کوئی ایک اکائی نہیں رہی ہے۔ اس کی دھڑے بندی کرنے میں جہاں بھارت کے سیاسی پنڈتوں کا کافی عمل دخل رہا ہے وہیں پاکستانی سیاست دانوں نے بھی اس کے حصے بخرے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر گیلانی دھڑے میں 24 اکائیاں موجود ہیں اور سب کی سوچ میں وقت اور سرکاروں کی تھپیڑوں سے تغیروتبدل پیدا ہوتا رہا ہے، وہیں میر واعظ کے معتدل کہلانے والے دھڑے میں تقریباً 27 جماعتیں شامل ہیں۔ جن میں وہ رہنما بھی ہیں جو دہلی کے ایوانوں میں مقبولیت کے حامی بتائے جاتے ہیں۔
گیلانی کا اعلان، جعلی یا صحیح؟
جوابی اعلانات، بھارتی پولیس کی سراہنا یا پاکستانی میڈیا کا ماتم؟ الزامات اور جوابی الزامات وغیرہ کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے اور اس سب شورش کے دوران کوئی اس بات پر توجہ نہیں دیتا کہ گیلانی عمر اور علالت کی وجہ سے ان دنوں کن حالات سے گزر رہے ہوں گے۔ وہ بات کرنے کی ہمت رکھتے بھی ہیں یا نہیں، گھر پر پولیس کے پہرے میں افراد خانہ کی کتنی مشکلات ہیں، مختلف دھڑوں نے کس کس سے، کس کس طرح کے مراسم قائم کیے ہیں۔ اس لیے کہ یہ سب کچھ اس بڑی جیل میں ہو رہا ہے جس کو دنیا کشمیر کے طور پر جانتی ہے، جہاں شدید پابندیوں اور سختیوں نے باپ کو بیٹے سے اور ماں کو بیٹی سے جدا کر رکھا ہے۔ سکیورٹی کےسخت پہروں نے بات کرنے پر مہر لگا دی ہے۔ اگر کوئی بات کرنے کی جرت کرتا ہے تو اس پر ’دہشت گرد‘ ہونے کا لیبل لگ جاتا ہے۔
ایسے حالات میں گیلانی نے کیا کہا، کب کہا اور کیا ان سے کہلوایا گیا یا ریموٹ پر اس وقت کس کی انگلی ہے اس کا تعین اس اندھیر نگری میں کون کرے؟