پاکستان میں جہاں کرونا (کورونا) وبا اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کے باعث ہر قسم کی سرگرمیوں میں تعطل آیا وہیں دہشت گردی میں کمی ہونے کی بجائے حیران کن اضافہ ہوا۔
غیر سرکاری تنظیم 'نیشنل انیشی ایٹو اگینسٹ آرگنائزڈ کرائم' کی جاری کردہ رپورٹ میں کرونا وبا کے دوران دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے جن سے انکشاف ہوا کہ رواں سال مارچ سے پاکستان کی سکیورٹی صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی بلکہ مئی اور جون میں بلوچستان کے جنوب مغربی حصے اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے واقعات بڑھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ دہشت گردی کے واقعات کو وبا کے ساتھ جوڑنا مشکل ہے مگر اس سے دہشت گردوں کی صلاحیت کا پتا چلتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومتی دعوؤں کے باوجود وہ کراچی سے قبائلی علاقوں تک حملے کر سکتے ہیں۔
رپورٹ میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا کہ عسکریت پسند وبا کے باعث پیدا شدہ صورت حال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
بڑھتی ہوئی سماجی مشکلات، عوامی شکوے اور ریاست کی سماجی حوالے سے عوامی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکامی، یہ سب وجوہات ہیں جن سے عسکریت پسند فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسے اشارے ملے ہیں کہ عکسری گروہ ایک بار پھر خود کو منظم کرتے ہوئے اور اپنی آپریشنل صلاحیت کو یکجا کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں افغانستان کی صورت حال پر لکھا گیا کہ افغانستان میں ہونے والے واقعات پاکستان پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق: 'طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات سے طالبان کا القاعدہ اور پاکستانی طالبان سے تعلق متاثر ہو سکتا ہے جس کے پاکستان پر سکیورٹی اثرات ہوں گے۔'
رپورٹ میں تحریک طالبان پاکستان کو ایمنسٹی (عام معافی) کے حوالے سے بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ سے منسوب بیان جس میں انہوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ نو ہزار طالبان افغانستان سے واپس پاکستان آنا چاہتے ہیں اور ہتھیار چھوڑ کر معافی چاہتے ہیں کے حوالے سے رپورٹ کا کہنا ہے کہ مقامی قبائلی افراد ان کی واپسی پر آمادہ نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور مقامی انتظامیہ کو پالیسی وضع کرنی ہو گی کہ کیسے اس مسئلے سے نمٹا جائے۔
اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی جانب سے دیے گئے اقدامات میں سے آدھوں پر ابھی عمل در آمد کرنا باقی ہے جس میں کالعدم تنظیموں کے افراد کے خلاف کارروائی، مدرسہ قواعد اور کالعدم تنظیموں کی فنڈنگ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے پاکستان کو مسئلہ ہو سکتا ہے جس کی وجہ افغانستان کے ساتھ سرحد ہے جہاں کی بیشتر معیشت ڈاکومنٹ نہیں۔
اعداد و شمار
رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق یکم مارچ سے 30 جون تک ملک بھر میں کل 43 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 58 ہلاکتیں اور 88 افراد زخمی ہوئے۔ عسکریت پسندوں کے خلاف 15 کارروائیوں کے 19 واقعات میں کل 69 ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ سکیورٹی فورسز نے سات حملے کے منصوبوں کو بھی ناکام بنایا۔
پاکستان بھر میں ہونے والے حملوں میں سے 58 فیصد (25 حملے) خیبر پختونخوا میں ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں شمالی وزیرستان سب سے زیادہ عسکریت پسندوں کے نشانے پر رہا کیونکہ کل 25 میں سے 14 حملے یہیں ہوئے۔
دیگر حملے باجوڑ، کرم اور پشاور میں ہوئے۔ عسکریت پسندوں کے حملوں کا نشانہ سکیورٹی فورسز رہیں۔ 68 فیصد حملے سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے خلاف ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خیبر پختونخوا کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ حملے بلوچستان میں ہوئے۔ ان تین مہینوں میں سات حملوں میں 17 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملے بلوچ لبریشن آرمی، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور لشکر بلوچستان نے کیے۔ بلوچستان میں بھی سکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں کے نشانے پر رہیں۔ سات حملوں میں سے چھ سکیورٹی فورسز کے خلاف ہوئے۔
فعال عسکری گروہ
گذشتہ چار مہینوں میں چار مذہبی گروہ اور سات علیحدگی پسند قوم پرست تنظیمیں ملک میں فعال رہیں۔ ان تنظیموں میں تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار، مقامی طالبان، یونائیٹد بلوچ فرنٹ، بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچستان ریپبلکن آرمی، لشکر بلوچستان، سندھو دیش لبریشن فرنٹ، سندھو دیش ریوولوشن آرمی، حزب الاحرار اور فرقہ وار مخالف گروپ متحرک رہے۔
چار حملے ایسے بھی تھے جن کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔
اس رپورٹ پر سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن ماضی میں رد الفساد اور ضرب عضب جیسی فوجیوں کارروائیوں سے شدت پسندوں کی طاقت کم ہوئی ہے۔