گذشتہ کچھ روز سے ملک میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ یوٹیوب کی بندش کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ دراصل ایسی صدائیں عزت مآب سپریم کورٹ سے اس وقت سنائی دینے لگیں جب ایک فاضل جج صاحب نے توہینِ عدالت کیس میں رمارکس دیتے ہوئے اشارہ دیا کہ کیوں نہ ملک میں یوٹیوب پر پابندی لگائی جائے؟
پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی کا عندیہ اس لیے بھی حیرت انگیز محسوس نہیں ہوا کیونکہ ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کے اس اہم ترین ذریعے پر پہلی مرتبہ پابندی نہیں لگنے جارہی۔ اس طرح کی مثالیں ماضی میں بھی ہمیں دیکھنے کو ملی ہیں اور پابندی کے باوجود بھی ملک کا نظام جوں کا توں چلتا رہتا تھا لیکن اس مرتبہ یوٹیوب پر پابندی کی بات ماضی کی نسبت مزید تشویشناک ہے جس کے متعدد پہلو ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں ماضی میں یوٹیوب پر لگنے والی پابندی کے وقت یہ ویب سائٹ محض تفریحی و معلوماتی مواد دیکھنے کے ہی کام آتی تھی تاہم اب دنیا بھر میں تیزی سے اپنی مقبولیت کے پنجے گاڑنے والی اس ویب سائٹ نے سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں انقلاب برپا کر رکھا ہے کیونکہ اب یوٹیوب صرف تفریح اور معلوماتی مواد کا ہی سنگم نہیں رہا لیکن دنیا بھر کے لاکھوں افراد کی طرح پاکستان کے ہزاروں نوجوانوں نے بھی اس ویب سائٹ سے اپنے معاشی مقاصد منسلک کرلیے ہیں۔
پاکستان جیسے ایک ایسے ترقی پذیر ملک میں جہاں بیروزگاری کے باعث نوجوان خودکشی کرنے پر مجبور ہوں اور میرٹ ایک مراعت بن کر رہ گئی ہو وہاں نوجوانوں کی جانب سے اپنی مدد آپ کے تحت بیروزگاری سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے پیدا ہونے والے ذرائع کی بندش کا اشارہ لاکھوں نوجوانوں کے خوابوں کا گلا گھوٹنے کے مترادف ہے کیونکہ پاکستان میں یوٹیوب پر کام کرنے والے چینلز میں سے اکثریت اس سے قبل ہی پیمرا کی جانب سے ہونے والی قانون سازی کے عتاب تلے سانسیں لے رہی ہے۔
ایسی صورت میں جب نوجوانوں کے پاس ممکنہ طور پر اعلیٰ عدلیہ کا ہی سہارہ تھا تو اسی قابلِ احترام عدالت کی جانب سے ان کی امنگوں کو سنگسار کرنا نہ صرف باعث تشویش ہے بلکہ اداس نسل کے لیے معاشی قتلِ عام کا بھی باعث بن سکتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل پیمرا کی جانب سے جب یوٹیوب پر کام کرنے والے ملکی چینلز کی قانون سازی کے لیے کام کا آغاز کیا گیا تھا، اس وقت کراچی پریس کلب میں تمام ایسے چینلز کے مالکان کی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ایک یوٹیوب چینل میں بطور مینیجنگ ڈئریکٹر کام کرنے کی بنا پر مجھے بھی اس کانفرنس میں شرکت کرنے کا موقعہ ملا۔ دن بھر جاری رہنے والی اس کانفرنس کے دوران پیمرا کے خلاف تقاریر ہوتی رہیں اور مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پیمرا کی جانب سے قانون سازی کی صورت میں شدید احتجاج کیا جائے گا اور ایسی قانون سازی کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
اس احتجاج کی بنیاد پیمرا کی جانب سے مقرر کردہ بھاری رجسٹریشن فیس اور ممکنہ طور پر سنسرشپ کا آسیب تھی لیکن اس کانفرنس سے واپسی پر میں نے اپنے کچھ دیگر یوٹیوب چینل مالکان دوستوں کے ساتھ اس نقطے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اگر پیمرا قانون سازی کرنے جا رہا ہے تو اس میں کم از کم ایسے یوٹیوبرز کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے جو اپنے صارفین کو معیاری مواد دینے کے لیے کوشاں ہیں اور بھاری فیس کی بنا پر ایسی قانون سازی کو مکمل طور پر مسترد کرنے کی منطق میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ لہذا یوٹیوب چینلز مالکان کو پیمرا کے ساتھ مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے کوئی بیچ کا راستہ نکالنا چاہیے اور ایسی قانون سازی کو یقینی بنایا جائے جو دونوں فریقین کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکے کیونکہ ایسے عمل سے معیاری مواد کی نشریات بھی ممکن بن سکے گی تاہم کسی بھی ممکنہ سنسرشپ کا راستہ روکنے کے لیے ہمیں مالکان کا ساتھ دینا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس طرح ہم چند مالکان ایسے تھے جو اس بات پر اتفاق کررہے تھے، باقی تمام تر مالکان پیمرا کے خلاف شدید احتجاج کے لیے کمر کسنے کی تیاری میں تھے۔
چنانچہ یوٹیوب چینل مالکان کی پیمرا مخالف پالیسی کی تیاری کی بھی ہماری جانب سے مخالفت کی گئی تھی لیکن اب جب سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحب کی جانب سے یوٹیوب پر بندش کا عندیہ دیا گیا ہے تو انتہائی احترام سے ہم ان کے حضور یہ عرض رکھنا چاہتے ہیں کہ ایسے اقدامات ملک کے ہزاروں نوجوانوں کے خوابوں کو ریزہ ریزہ کرنے کی کوشش ثابت ہوسکتے ہیں جس پر نظر ثانی کی جائے۔ پاکستان میں یوٹیوب پر کام کرنے والےنوجوان بیرونی ممالک سے ملک میں رقم کی منتقلی کو بھی یقینی بنا رہے ہیں جس کے باعث ملکی معیشت کو بہتر سمت میں گامزن کرنے میں بھی ان کا اہم کردار ہے جس کا سہرا بھی اسی یوٹیوب کے سر جا رہا ہے جس پر بندش کی بازگشت چل رہی ہے۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں یوٹیوب پر کام کرنے والے نوجوانوں میں سے جو کامیاب یوٹیورز ہیں ان کے ذریعے ملک میں ماہانہ تقریباً 25 ہزار ڈالر کی رقم لائی جارہی ہے جو پاکستانی 41 لاکھ روپے سے زائد بنتے ہیں ۔ اسی طرح پاکستان میں یوٹیوب پر کام کرنے والے ایسے بھی نوجوان موجود ہیں جو بیروزگاری اور اپنی عملی زندگی میں ناکام ہو کر رہ گئے تھے اور منشیات کا سہارہ لینے پر مجبور تھے لیکن آج وہ یوٹیوب کے ذریعے پاکستان کے دیگر نوجوانوں کے لئے مشعلِ راہ بنے ہوئے ہیں اور ان کا شمار پاکستان کے بڑے یوٹیوبرز میں ہوتا ہے۔
ایسے ہی نوجوانوں کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اس وقت پاکستان میں لاکھوں نوجوان اپنے خوابوں کو یوٹیوب سے منسلک کرکے محنت کررہے ہیں اور یوٹیوب کی بندش کے باعث ان کا مستقبل تباہی کے دہانے پر آجائے گا۔ اس کے علاوہ حالیہ دور میں دنیا بھر کے سرمائے کا ایک بہت بڑا حصہ یوٹیوب اور اس جیسی دیگر ویب سائٹ پر لگایا جا رہا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کےاس اہم ترین محاذ پر پاکستان کا نوجوان ہی ہے جو معیشت و ٹیکنالوجی کی اس جنگ میں سپاہی کا کردار ادا کررہا ہے جس کی بندش کے باعث ترقی کی دوڑ میں پاکستان بہت پیچھے چلا جائے گا۔
یوٹیوب پر نشر ہونے والے مواد پر متعلقہ اداروں کو اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنا ہوگا جس کے باعث یوٹیوب پر معیاری مواد کے نشر ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ دوسری جانب کسی بھی چیز پر پابندی عائد کرنا مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ اس کے باعث مزید مسائل پیدا ہو نے کا خدشہ ہے۔ علم و ادب، فن و ثقافت، تہذیب و تمدن اور ترقی کی راہ میں پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے یوٹیوب اور اس جیسی دیگر ویب سائٹس کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ یہاں کا نوجوان اپنی راہیں خود تشکیل دے کر ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔