بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت امدادی رقوم لینے والی سندھ کی خواتین نے پروگرام کا نام تبدیل کرنے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پہلے مرحلے میں نام تبدیل کرکے دوسرے مرحلے میں یہ پروگرام ہی بند کردیا جائے گا۔
دریائے سندھ پر موجود آخری ضلع ٹھٹہ میں پانی کی شدید قلت کے باعث اکثریتی آبادی معاشی بدحالی کا شکار ہے۔
ٹھٹہ کے شہر میرپور ساکرو کی رہائشی خاتون، چالیس سالہ نوری شیدی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ عمران خان یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سیاسی منافقت کی وجہ سے بے نظیر کے نام سے جاری ایک پروگرام کا نام تبدیل کردے۔
'اگر کوئی اور نام رکھنا ہے تو نیا پروگرام شروع کریں، نہ کہ ایک چلتے ہوئے پروگرام کا نام تبدیل کردیں'۔ نوری نے خدشہ ظاہر کیا کہ نام کی تبدیلی کے بہانے کہیں یہ پروگرام ہی نہ بند کردیا جائے۔
پیپلزپارٹی کے دور میں شروع ہونے والے بےنظیر انکم سپورٹ اسکیم کو مسلم لیگ (نواز) کی حکومت نے نہ صرف جاری رکھا بلکہ غریب اور مستحق افراد کی امدادی رقم ایک ہزار سے بڑھا کر پندرہ سو روپے بھی کردی اور پروگرام کا نام بھی تبدیل نہیں کیا۔
دوسری طرف عمران حکومت نے پہلے تو نومبر 2018 میں ایک اجلاس کے دوران نہ صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو جاری رکھنے کا اعلان کیا بلکہ اسی پروگرام کے مستحق افراد کی امدادی رقم میں اضافے کا اعلان کیا۔
مگر گذشتہ دنوں عمران خان کے دورہ سندھ کے دوران مقامی اخبارات نے خبر دی کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرکے پاکستان ویلفیرپروگرام، قائداعظم سپورٹ پروگرام یا متفقہ طور پر کوئی بھی اور نام رکھنے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے۔
ایسی خبروں کے بعد پروگرام کے تحت امدادی رقم لینے والی سندھ کی خواتین میں بے چینی پائے جاتی ہے۔
ٹھٹھہ ضلع کے شہر گاڑھو کی رہائشی خاتوں سکھاں جوکھیو کہتی ہیں کہ سپورٹ پروگرام کے تحت امدادی رقم لینے والی خواتین بے نظیر کے لیے دعا کرتی ہیں۔ یہ نہ صرف ایک مالی مدد ہے بلکہ اس کے ساتھ خواتین کا جذباتی لگاؤ بھی ہے۔ سکھاں نے مطالبہ کیا کہ پروگرام کا نام تبدیل نہ کیا جائے۔
ٹنڈو محمد خان کی رہائشی خاتون جوراں کیریو نے کہا کہ نام میں کیا رکھا ہے، انھیں رقم سے مطلب ہے، نام کوئی بھی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ابھی تک سنا تو نہیں ہے، لیکن اگر نام تبدیل بھی کیا جائے تو خواتین پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جوراں نے کہا کہ نام تبدیل کریں یا نہیں پر امدادی رقم میں اضافہ کیا جائے۔