پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والے ماہرین نے انٹرنیٹ کے لیے ضابطوں (regulations) کے حق میں فیس بک کے بیان کو جہاں ایک اچھا قدم قرار دیا ہے وہیں خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے لوگوں کے لیے ایسے سرکاری ضابطے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔
پچھلے ہفتے فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے کہا تھا کہ حکومتوں اور ریگیولیٹروں کو انٹرنیٹ پر چیک رکھنے کے لیے مضبوط قواعد و ضوابط بنانے میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک تحریر میں مارک زکربرگ نے لکھا: ’ہم روز فیصلے لیتے ہیں کہ کون سی بات نقصان دہ ہے، سیاسی اشتہاروں کے دائرے میں کیا آتا ہے اور جدید سائبر حملوں کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔ یہ فیصلے ہماری کمیونٹی کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’قانون ساز اکثر مجھے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس گفتار پر بہت زیادہ طاقت ہے اور میں دراصل اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔‘
انہوں نے نقصان دہ مواد، انتخابات کی سالمیت، پرائیویسی اور ڈیٹا پورٹیبلیٹی (صارفین کا ایک ایپلیکیشن یا سروس سے دوسری ایپلیکیشن یا سروس پر اپنی معلومات کو ٹرانسفر کرنا) کے لیے قواعد بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں انتخابات کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔
ان کے مطابق فیس بک نے سیاسی اشتہاروں کو لے کر کافی تبدیلیاں کی ہیں۔
مئی میں یورپی یونین کے انتخابات سے پہلے فیس بک نے پچھلے ہفتے یورپی یونین کے ملکوں میں سیاسی اشتہارات پر لیبل لگا دیے ہیں جن میں اشتہار دینے والے، اس کی قیمت اور اشتہار کس کو دکھائےگئے ہیں کی تفصیل شامل ہے۔
فیس بک کے بانی نے کہا اس بات کا تعین کرنا کہ کوئی اشتہار سیاسی ہے یا نہیں آسان نہیں۔ ’ہمارے سسٹم اُس وقت زیادہ موثر ہوں گے جب ایسے قواعد بنیں گے جس سے سیاسی اداکاروں کو پہچاننا آسان ہو۔‘
نقصان دہ مواد کے بارے میں انہوں نے کہا کہ فیس بک آزاد ادارہ بن رہا ہے جس سے لوگ شیئر کی گئی یا ہٹا دی گئی پوسٹوں کے بارے میں فیس بک کے فیصلوں پر اپیل کر سکتے ہیں۔
’انٹرنیٹ پر موجود تمام نقصان دہ مواد کو ہٹانا مشکل ہے مگر جب لوگ خود مختار پالیسیاں رکھنے والی درجنوں مختلف شیئرنگ سروسز کا استعمال کرتے ہیں تو ہمیں ایک معیاری سوچ کی ضرورت ہے۔‘
ڈیٹا تحفظ اور پرائیویسی کے بارے میں زکربرگ نے کہا کہ اس کے لیے عالمی فریم ورک کی ضرورت ہے جبکہ ڈیٹا پورٹیبلیٹی صارفین کےلیے ضروری ہے تاکہ وہ باآسانی ایک سروس سے دوسری سروس پر اپنا ڈیٹا ٹرانسفر کرسکیں اور اس کے لیے بھی شفاف قوانین ہونے چاہییں کہ ٹرانسفر کے دوران معلومات کو محفوظ رکھنے کا کون ذمہ دار ہوگا۔
حکومتوں سے انٹرنیٹ کے لیے ضوابط بنانے کی اپیل کرتے ہوئے زکربرگ نے کہا: ’فیس بک کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے میں مدد کرے اور میں قانون سازوں کے ساتھ اس پر بات کرنے کے لیے منتظر ہوں۔‘
انٹرنیٹ پلیٹ فارموں پر حکومتی ریگولیشن کے بارے میں یہ آج تک مارک زکربرگ کا سب سے زیادہ واضح جواب ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے تنقید میں گھری ہوئی فیس بک کی طرف سے یہ ایک اچھا پیغام ہے کہ وہ ضوابط کے لیے تیار ہے مگر انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے کے لیےعالمی قواعد بنانا اتنا آسان نہیں بلکہ کچھ حکومتوں کے پاس ایسی طاقت شہریوں کے لیے مشکلات بھی پیدا کر سکتی ہیں۔
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم بائیٹس فار آل کے ہارون بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا جب بھی ریگولیشن کی بات ہوتی ہے، یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں اس میں اچھی نہیں ہوتیں۔
انہوں نے کہا: ’ریگولیشن کے بجائے بہترین عالمی پریکٹسز ہونی چاہییں یا کوئی ایسا فریم ورک ہو جس کے تحت چیزوں کی تشریح کی گئی ہو اور تمام سٹیک ہولڈر جیسے فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ کے لیے دستیاب ہو تاکہ وہ اس کی رہنمائی میں اپنے پلیٹ فارموں پر مواد کو ریگولیٹ کر سکیں۔‘
پاکستان میں انٹرنیٹ کے ممکنہ ضوابط بننے پر ہارون بلوچ نے کہا کہ اس کا اثر صارفین پر ضرور ہوگا کیونکہ پاکستان میں قانون سازی زیادہ تر ایک پولیس سٹیٹ کی طرح کی جاتی ہے اور قوانین کی تفسیر بھی قومی سلامتی کے زاویے سے کی جاتی ہے، اس سے انٹرنیٹ پر جائز تنقید بھی کسی صارف کو مصیبت میں ڈال سکتی ہے۔
انہوں نے کہا: ’انٹرنیٹ ایک منفرد میڈیم ہے جس میں سب میڈیم اکٹھے ہوتے ہیں اور یہ آزادی اظہار کو ممکن بناتا ہے۔‘
’اس کا بنیادی تصور ہی یہ ہے کہ آپ کو کھلی، سستی اور محفوظ جگہ ملے۔ اگر آپ نے ایسی قانون سازی کردی جس میں ان چیزوں پر اثر پڑے تو انٹرنیٹ کھلا نہیں رہے گا، اس پر حکومتی اداروں کی نگرانی ہوگی، صارفین کو ہراساں کیا جائے گا اور انٹرنیٹ کا بنیادی مقصد ختم ہو جائے گا۔‘
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی پروگرام مینیجر شمائلہ خان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر انٹرنیٹ ضوابط کے بارے میں اتفاق نہیں ہے بلکہ ممالک اور خطوں جیسے کہ یورپی یونین کے اپنے اپنے ماڈل ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان میں کوئی ڈیٹا پروٹیکشن قانون نہیں اور یورپی یونین کا ڈیٹا پروٹیکشن قانون ’جی ڈی پی آر‘ ایک حد تک کامیاب ماڈل ہے جس کو پاکستان میں لایا جاسکتا ہے، مگر اس کا مطلب ہوگا کہ حکومت کو اپنے پاس جمع ڈیٹا کے تحفظ کے معیار کو بہتر کرنا پڑے گا۔
شمائلہ خان نے کہا: ’ریگولیشن سے حکومتوں اور کمپنیوں کے درمیان تعاون بہترہو سکتا ہے مگر اس کے مسائل بھی ہوسکتے ہیں۔ اکثر اوقات حکومتیں خود اشاعت کے ضابطوں اور پرائیویسی پر اچھا کام نہیں کر رہی ہوتیں یا پھر خود ہی آزادی اظہار رائے کو دبانے کی ساز باز میں شامل ہوتی ہیں۔‘
’اب دیکھنا ہے کہ اگر کوئی ضوابط بنتے ہیں تو کیا وہ صارفین کو زیادہ حقوق دیں گے یا پھر حکومتوں کو۔‘