پاکستان سے باہر بہت سے پاکستانی ایسے ہیں جو اس آس پر ملک چھوڑتے ہیں کہ ایک دن اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر، کامیاب ہو کر اور دولت کما کر وطن واپس آئیں گے۔
آج کے وزیر اعظم ماضی کے تمام وزرا اعظم کی نسبت بیرون ملک پاکستانیوں میں زیادہ مقبولیت کا دعوی کرتے ہیں۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں
بہت سے بیرون ملک پاکستانیوں نے پی ٹی آئی کے لیے فنڈز دیے۔ اس کا ایک اور ثبوت وزیراعظم کے دورہ امریکہ میں کیپیٹل ون ارینا میں بھی نظر آیا جس سے نہ صرف ہمیں بلکہ دنیا کو، خاص طور پر امریکی صدر کو اور ہندوستان کو یہ پیغام ملا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس وزیر اعظم کو چاہتے ہیں۔
ان لوگوں کو زبردستی دور پار کے شہروں اور امریکی ریاستوں سے نہیں لایا گیا تھا بلکہ وہ اپنی مرضی سے اپنے وزیر اعظم کو دیکھنے آئے تھے۔ اس کے علاوہ ماضی میں عمران خان بیرون ملک پاکستانیوں کو انتخابات میں ان کا حق رائے دہی دلوانے کی بھی بات کرتے رہے۔
لیکن سمندر پار پاکستانی اس وقت ایک کشمکش کا شکار ضرور ہیں اور وہ کشمکش یہ ہے کہ کیا وہ اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب ہو کر وطن کی خدمت کرنے کا جذبہ لے کر پاکستان آ سکتے ہیں یا نہیں؟ کہیں ان کی حب الوطنی پر شک تو نہیں کیا جائے گا؟
اس کشمکش میں بیرون ملک پاکستانی اس لیے مبتلا ہیں کہ عمران خان کے دو معاونین خصوصی تانیہ ایدروس اور ڈاکٹر ظفر مرزا کے استعفے اس وقت آئے جب چند ہی دن پہلے کیبنیٹ ڈویژن کی ویب سائٹ پر وزیر اعظم کے حکم پر تمام معاونین خصوصی اور مشیران نے اپنے اثاثوں اور شہریت کی تفصیلات عوام کے سامنے ظاہر کر دیں۔
تانیہ ایدروس نے اپنے استعفے میں بھی یہی لکھا کہ دہری شہریت کی بنا پر میرے کام کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے ڈیجیٹل پاکستان کا نظریہ متاثر ہو رہا تھا۔
بیرون ملک پاکستانیوں کو اس سے یہی پیغام ملا ہے کہ دہری شہریت رکھنے والے پاکستانی خطرناک ہیں، ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور ان کی حب الوطنی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اب جو لوگ وزیر اعظم آفس میں آتے جاتے ہیں اور وہاں کی خبریں رکھتے ہیں ان کے مطابق یہ استعفے دونوں معاونین نے خود نہیں دیے بلکہ ان سے لیے گئے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر ظفر مرزا کی کارکردگی سے وزیر اعظم خوش نہیں تھے اور پہلے ہی ان کو عہدے سے ہٹانا چاہ رہے تھے لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے اس فیصلے میں تاخیر ہوئی۔
یہ بات وفاقی وزیر علی زیدی نے ایک پروگرام میں بھی کی کہ وزیر اعظم ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ اس کے علاوہ عدالت بھی مسلسل کرونا وائرس پر انکی کارکردگی پر سوالات اٹھاتی رہی۔
لیکن اسی دوران کرونا کیسز میں کمی آنے لگ گئی، حکومت یہ دعویٰ کرنے لگی کہ پاکستان نے ہندوستان سے اور دیگر کئی ممالک سے بہتر کرونا کو قابو کیا اور حکومتی اقدامات کے نتیجے میں اس وبا کے پھیلاؤ میں واضح کمی آئی ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر ظفر مرزا کو کس بات کی سزا ملی؟
بطور معاون خصوصی برائے صحت اصل میں تو وہی تھے جو کرونا وائرس سمیت صحت کے دیگر معاملات کے ذمہ دار تھے۔
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کو بیوروکرسی کی طرف سے ٹھیک رپورٹ نہیں دی جاتی جس کی بنیاد پر اس قسم کے فیصلے ہوتے ہیں جس سے پارٹی اور حکومت دونوں کو نقصان ہوتا ہے۔
جہاں تک تانیہ کی بات ہے ان کے حوالے سے کچھ عرصے سے یہ خبریں آ رہی تھیں کہ پارٹی میں اور بیوروکرسی میں کچھ ایسے طاقتور عناصر تھے جن کو تانیہ کھٹکتی تھیں اور چونکہ ان کو جہانگیر خان ترین لے کر آئے تھےاورکچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ انہیں جہانگیر ترین کا جاسوس سمجھا جاتا تھا۔ تو ان کی مخالفت میں تانیہ کی بھی مخالفت شروع ہوگئی۔
انہیں نکالنے کے لیے بہانہ بنایا گیا کہ انہوں نے ڈیجیٹل پاکستان فاونڈیشن بنائی ہے جو سیکشن 42 کے تحت ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے۔
تانیہ کہتی ہیں کہ حکومت یا حکومتی فنڈز سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا اور قانون انہیں اس کی اجازت دیتا ہے۔ تانیہ کو یہ بھی کہا گیا کہ آپ یہ کہیں کہ میں ذاتی وجوہات کی بنا پر استعفیٰ دے رہی ہوں لیکن انہوں نے اپنی کینیڈا کی شہریت کا ذکر کر دیا۔ تانیہ کو بھی نکالنے کی وجہ پارٹی کے اور حکومت کے اندر کی سیاست تھی لیکن بنیاد بنایا گیا دہری شہریت کو اور ڈیجیٹل پاکستان فاونڈیشن کو۔
ان فیصلوں سے یہ تاثر جاتا ہے کہ یہ ایک کمزور حکومت ہے جو معاملات کو درست انداز میں نہیں دیکھ پا رہی۔ اس میں شفافیت کی بھی کمی نظر آ رہی ہے کیونکہ آپ نے نکالنا کسی کو ایک وجہ سے ہے لیکن الزام اس پر آپ کوئی اور لگا دیتے ہیں۔
ایک اہم بات یہ بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ ظفر مرزا عالمی ادارہ صحت کی نوکری چھوڑ کر اور تانیہ ایدروس گوگل چھوڑ کر پاکستان آئیں۔ دونوں سیاست دان نہیں ہیں اور اسی لیے دونوں کی باتیں پروفیشنل زیادہ اور سیاسی کم ہوتی ہیں۔
پاکستان کے برعکس باہر کی دنیا میں نوکریاں سفارش، رشتےداریوں، یا چاپلوسیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ قابلیت کی بنیاد پر ملتی ہیں۔ دونوں پر جس قسم کے الزامات لگائے گئے اس کے بعد دونوں کا پروفیشنل مستقبل مشکل میں پڑ جائےگا۔
ظفر مرزا کے حوالے سے خبریں ہیں کہ وہ پاکستان میں ہی قیام کریں گے لیکن تانیہ شاید باہر چلی جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کا بہترین ہیومن ریسورس جو باہر بیٹھا ہے سب کو یہی پیغام گیا ہے کہ اگر آپ کہیں مستقل نوکری کرتے ہیں تو پاکستان واپس نہ آئیں کیونکہ اس ملک پر اور نظام پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ جب عمران خان کی حکومت میں ایسا ہوتا ہے تو دکھ اور زیادہ ہوتا ہے کہ یہ تو خود کہتے تھے کہ بیرون ملک پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں، ہمارے ملک کا سب سے زیادہ درد وہ لوگ رکھتے ہیں، مشکل میں کام آتے ہیں، زرمبادلہ بھیج کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچاتے ہیں۔ یہ تمام خان صاحب کے اپنے بیانات ہیں۔
اگر وزیراعظم نے کوئی ایک یو ٹرن لینا تھا تو وہ دوہری شہریت والے اپنے بیانات پر لینا تھا اور اپنے ماضی کے بیانات کی بھی وضاحت کرنی تھی جن میں خود عمران خان یہ بھی کہتے سنے گئے کہ دوہری شہریت والوں کو حکومتی عہدے نہیں دینے چاہیے کیونکہ شاید ان کی حب الوطنی پر شک تھا۔اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ حکومت میں آکر معاملات کی سمجھ زیادہ آتی ہے۔لیکن اگر سمجھ آ ہی گئی تھی اور آپ نے اچھے ماہرین کو باہر سے بلا ہی لیا تھا تو وضاحت کرتے اور ان کا ساتھ دیتے تاکہ لاکھوں کی تعداد میں دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو آپ پر اور اپنے وطن پر اعتماد ہوتا۔
دوہری شہریت والے معاونین اور مشیران پر ایک اعتراض یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ کابینہ کے اجلاسوں میں بیٹھتے ہیں مگر یہ بات درست نہیں ہے۔ معاونین ہوں، مشیران ہوں یا وزیر ہوں، وہ تمام اجلاسوں میں نہیں جاتے بلکہ صرف اسی میں شرکت کرتے ہیں جہاں ان کے کام اور عہدے کے حوالے سے معاملات پر بحث ہونی ہو۔ وزیروں کو یہ اختیار ہے کہ وہ کابینہ اجلاس میں مرضی سے جا سکتے ہیں۔ جبکہ معاونین خصوصی کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اور یہ تحریری دعوت نامہ وزیر اعظم کا دفتر جاری کرتا ہے۔
حکومت کے بہت کم ایسے محکمے ہیں جہاں ایسی حساس معلومات ہوتی ہیں جنہیں دوسرے ممالک کے چرا لینے کا خدشہ ہو۔ دنیا کے دیگر ممالک میں دوہری شہریت والے لوگ محکموں میں کام کرتے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن جب لندن کے میئر تھے تو ان کے پاس امریکہ کی دوہری شہریت بھی تھی۔ بہت کم ایسے ادارے اور عہدے ہیں جہاں دوہری شہریت رکھنے والے نہیں رکھے جا سکتے، ان میں دفاعی معاملات، سائنس کے حساس معاملات جن میں آپ کے جوہری پروگرام سے متعلق معلومات چوری ہونے کا خطرہ ہو، شامل ہیں۔
ایسی وضاحت دینے کی بجائے حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کو پریشان کر دیا اور یہ تاثر گیا کہ جب بھی حکومت کو کہیں سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہاں وہ اپنی پالیسی کا دفاع نہیں کر سکتی۔
اس میں قصور ان کا بھی ہے جو سیاسی دفاع کرنے کے لیے رکھے گئے ہیں کیونکہ آدھی پارٹی اور اہم رہنما تو ministerial politics کر رہے ہیں، پارٹی کی طرف اور پارٹی کے نظریے کو عوام کے سامنے رکھنے اور اس پر سوچنے والے نظر نہیں آتے۔