چین انسانی سطح کی مصنوعی ذہانت کے قریب

انتھونی کتھبرٹسن لکھتے ہیں کہ مینس نامی ایک اے آئی ایجنٹ نے قیاس آرائیاں کی ہیں کہ چین مصنوعی جنرل انٹیلی جنس (اے جی آئی) کے حصول کے قریب ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل میں جو ہوگا وہ تباہ کن ہوسکتا ہے۔

 11 مارچ 2025 کو بیجنگ میں لی گئی ایک تصویر میں ایک موبائل فون دکھایا گیا ہے جس میں مصنوعی ذہانت کے  اسسٹنٹ ٹولمینس  کے لیے تعارفی سکرین دیکھی جا سکتی ہے، جسے چینی سٹارٹ اپ بٹر فلائی ایفیکٹ نے جاری کیا ہے (اے ایف پی)

کئی دہائیوں تک ٹیورنگ ٹیسٹ کو اس بات کا حتمی پیمانہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ آیا کمپیوٹر انسانی ذہانت کی سطح تک پہنچ گئے ہیں یا نہیں۔

1950 میں ایلن ٹیورنگ نے اس ٹیسٹ کو ’نقل کرنے کے کھیل‘ کا نام دیا۔ اس ٹیسٹ کے تحت ایک مشین کو تحریری شکل میں اس طرح گفتگو کرنی ہوتی ہے کہ انسان پہچان نہ سکے کہ بات کرنے والا واقعی انسان ہے یا کمپیوٹر۔

یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جو مشین ٹیورنگ ٹیسٹ پاس کرلے گی وہ منطق، خود مختاری اور ممکنہ طور پر شعور کے اظہار کی صلاحیت کی بھی مالک ہو گی۔

اس طرح کی مشین کو انسانی سطح کی مصنوعی ذہانت یا مصنوعی عمومی ذہانت (اے جی آئی) قرار دیا جاسکے گا۔

چیٹ جی پی ٹی کی آمد نے اس تصور کو ختم کر دیا کیوں کہ اس نے ٹیورنگ ٹیسٹ کو محض جدید انداز میں نمونوں کی شناخت کے ذریعے کامیابی سے پاس کر لیا۔ اس میں نقل کرنے کی صلاحیت تھی لیکن نقل تیار کرنے کی نہیں۔

گذشتہ ہفتے مینس نامی ایک نئے اے آئی ایجنٹ نے ایک بار پھر مصنوعی عمومی ذہانت کے حوالے سے ہمارے خیالات کو آزمایا۔

اس کے چینی محققین اسے ’دنیا کا پہلا مکمل خودمختار اے آئی‘ قرار دیتے ہیں، جو انسانوں کی کسی بھی رہنمائی کے بغیر چھٹیاں گزارنے کے لیے بکنگ، جائیداد کی خریداری یا پوڈکاسٹ بنانے جیسے پیچیدہ کام انجام دے سکتا ہے۔

چین کے شہر ووہان میں قائم سٹارٹ اپ بٹرفلائی ایفیکٹ میں اس اے آئی کو تیار کرنے والی ٹیم کے سربراہ ییچاؤ جی کہتے ہیں کہ مینس ’تصور اور عمل کے درمیان فاصلے کو ختم کرتا ہے‘ اور مصنوعی ذہانت کی ’اگلی مثال ہے۔‘

منظر عام پر آنے کے چند ہی دنوں کے اندر، مینس اے آئی سسٹم کے ابتدائی ٹیسٹرز میں شامل ہونے کے لیے دعوتی کوڈز آن لائن مارکیٹ میں 50 ہزار یوآن (تقریباً 5300 برطانوی پاؤنڈ) تک فروخت ہونے لگے۔

اس سسٹم کو استعمال کرنے والے بعض افراد کا دعویٰ ہے کہ مصنوعی ذہانت کا اگلا مرحلہ شاید اب بالآخر حاصل ہو گیا ہے۔

ابھی تک مصنوعی عمومی ذہانت کی کوئی رسمی یا واضح تعریف موجود نہیں اور نہ ہی اس بات پر کوئی متفقہ رائے پائی جاتی ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد اسے کس طرح کنٹرول کیا جائے۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی مشینوں کو شعور رکھنے والی مخلوق تصور کرنا چاہیے اور انہیں دیگر باشعور جانداروں کی طرح حقوق بھی ملنے چاہییں۔

تاہم دوسری جانب کچھ لوگوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر بروقت احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو اس قسم کی ٹیکنالوجی کی آمد تباہ کن بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

اے آئی پر مبنی تحقیقی ادارے کارپورا ڈاٹ اے آئی کے سربراہ میل مورس نے دی انڈپینڈنٹ سے گفتگو میں کہا کہ ’مینس جیسے خودمختار اے آئی ایجنٹس کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دینا سنگین خدشات کو جنم دیتا ہے۔ اگر انہیں سٹاکس کی خرید و فروخت جیسے حساس معاملات پر خودمختاری دے دی گئی تو معمولی غلطیاں بھی بڑے پیمانے پر افراتفری پیدا کر سکتی ہیں۔‘

مورس ایک منظرنامے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جدید اے آئی ماڈلز ممکنہ طور پر اپنی ایک الگ زبان تشکیل دے سکتے ہیں، جسے انسان سمجھ نہ پائیں۔ ایسی زبان شاید صرف دو روبوٹس کے درمیان زیادہ مؤثر اور تیز رابطے کے لیے بنائی جائے، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان اس عمل کی نگرانی کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

یہ صورت حال مکمل طور پر مفروضہ بھی نہیں۔ بعض اے آئی ایجنٹس پہلے ہی انسانوں کے لیے ناقابل فہم گفتگو کرنے کی صلاحیت دکھا چکے ہیں۔

گذشتہ ماہ میٹا کے اے آئی محققین نے دو ایسے چیٹ بوٹس تیار کیے جو آپس میں نئی آوازوں پر مبنی زبان استعمال کرتے ہوئے رابطہ کر سکتے ہیں۔ اس نئے پروٹوکول کا نام گبرلنک موڈ رکھا گیا۔

اس نئی زبان کے ذریعے، جو تیز بیپس اور مخصوص آوازوں جیسی محسوس ہوتی ہے، دونوں بوٹس صرف ایک مختصر فون کال میں شادی کی تقریب کا انتظام کرنے میں کامیاب رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم اس گفتگو کو ماہرین کے تیار کردہ خصوصی سافٹ ویئر کے ذریعے اب بھی عام زبان میں ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔

مورس کہتے ہیں کہ ’یہ منظرنامہ بیک وقت حیرت انگیز بھی ہے اور تشویش ناک بھی۔ اے آئی اور خودمختار ایجنٹس کے حوالے سے ابھی بھی بہت سے پہلو ایسے ہیں جنہیں سمجھا نہیں جا سکا۔ ایسی ٹیکنالوجی کو عملی میدان میں لانے سے پہلے اس کی نگرانی اور کنٹرول کے مؤثر انتظامات انتہائی ضروری ہیں۔ بدقسمتی سے اس معاملے میں اب تک بہت کم پیش رفت ہوئی ہے، جسے فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

مصنوعی عمومی ذہانت سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات اس قدر سنگین ہیں کہ اس صنعت کے بعض ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اس کی آمد انسانیت کے لیے ایٹم بم کی ایجاد کے بعد سب سے زیادہ خطرناک مرحلہ ثابت ہو سکتی ہے۔

حال ہی میں گوگل کے سابق سی ای او ایرک شمٹ کی مشترکہ طور پر تحریر کردہ تحقیقی دستاویز ’سپر انٹیلی جنس سٹریٹیجی‘ میں ’باہمی یقینی اے آئی خرابی‘ کے امکان پر بات کی گئی، جو ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق ’باہمی یقینی تباہی‘ کے نظریے سے ملتا جلتا ہے۔

اس پیپر میں پیش کردہ نظریے کے مطابق اگر چین اور امریکہ دونوں مصنوعی عمومی ذہانت حاصل کر لیتے ہیں تو دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ طور پر اسے استعمال کرنے سے گریز کریں گے، کیوں کہ انہیں یقین ہوگا کہ دوسری طرف سے جوابی کارروائی کے طور پر یہی ٹیکنالوجی ان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے۔

شمٹ اور ان کے ساتھی مصنفین نے امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ سپر انٹیلی جنٹ اے آئی کے لیے ’مین ہٹن پراجیکٹ‘ جیسا خفیہ اور جارحانہ منصوبہ شروع کرنے کی بجائے تعلیمی اداروں اور نجی شعبے کے ساتھ مل کر ایک ایسی حکمتِ عملی بنائے، جس سے مصنوعی ذہانت کو بے قابو ہونے کو روکا جا سکے۔

لیکن جہاں ایک طرف امریکی اور یورپی کمپنیاں دعویٰ کر رہی ہیں کہ وہ اے آئی کے خطرناک حد تک آگے بڑھنے سے بچاؤ کے لیے حفاظتی انتظامات پر کام کر رہی ہیں، وہاں دوسری جانب چین میں اے آئی کی ترقی اور اس کے استعمال کے حوالے سے قواعد و ضوابط کا واضح فقدان نظر آتا ہے۔

یونی ورسٹی آف شفیلڈ کے سکول آف میتھ میٹیکل اینڈ فزیکل سائنسز کے لیکچرر ڈاکٹر وے شنگ نے دی انڈپینڈنٹ سے گفتگو میں کہا کہ ’مغربی معاشروں کے برعکس، جہاں نئی ٹیکنالوجی اپنانے سے پہلے اکثر اس کے اخلاقی پہلوؤں پر طویل بحث کی جاتی ہے، چین میں تاریخی طور پر ترجیح ہمیشہ عملی نفاذ کو دی جاتی ہے، جب کہ قواعد و ضوابط کا مرحلہ اختراع کے بعد آتا ہے۔

’جیسے خودمختار اے آئی ایجنٹ کا منظرِ عام پر آنا اسی ٹیکنالوجی کے حق میں مثبت رویے کی ایک واضح مثال ہے۔ جہاں ایک طرف سلیکون ویلی ابھی تک یہ بحث کر رہی ہے کہ مصنوعی ذہانت کو معاونت کی حد تک محدود رکھنا چاہیے یا نہیں، وہیں چین اے آئی کی مکمل خودمختاری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہی فرق آنے والے ٹیکنالوجی کے دور میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔‘

مینس کے حوالے سے جو جوش و خروش نظر آ رہا ہے، اس کا موازنہ چین کی جانب سے جنوری میں لانچ کیے گئے چیٹ جی پی ٹی کے حریف ڈیپ سیک کے ساتھ کیا جا رہا ہے، جسے چین کے لیے مصنوعی ذہانت کا ’سپٹنک لمحہ‘ قرار دیا گیا۔

ڈیپ سیک کے منظر عام پر آنے کے محض دو ہفتے بعد ہی چیٹ جی پی ٹی کی خالق کمپنی اوپن اے آئی نے اپنی اب تک کی سب سے جدید اے آئی ٹیکنالوجی ’ڈیپ ریسرچ‘ متعارف کروائی، جسے انڈسٹری کے بہت سے ماہرین نے چین کے اس نئے حریف کا براہ راست جواب سمجھا۔

چھ مارچ کو مینس کی لانچنگ کے بعد ایک بار پھر مصنوعی ذہانت کے حوالے سے دلچسپی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اس ہفتے آن لائن سرچ میں ’اے آئی ایجنٹ‘ کی اصطلاح کا استعمال تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ اس بڑے پیمانے پر دلچسپی نے دیگر سٹارٹ اپس کو بھی تیزی سے اپنی مصنوعات مارکیٹ میں لانے کی ترغیب دی، جس سے مصنوعی ذہانت کی ایک نئی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔

خاص طور پر ’اے آئی ایجنٹ‘ کی اصطلاح کے استعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ صارفین کی توجہ اب چیٹ جی پی ٹی اور گوگل کے جیمنائی جیسے غیر فعال معاونین سے آگے بڑھ کر ایسے فعال اے آئی ایجنٹس کی طرف منتقل ہو رہی ہے، جو خودمختار طور پر پیچیدہ کام انجام دینے کے قابل ہوں۔

اے آئی ڈیٹیکشن پلیٹ فارم کاپی لیکس کے شریک بانی اور سی ای او ایلون یامن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’مینس جیسے مصنوعی ذہانت کے ایجنٹ کا منظر عام پر آنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ عالمی سطح پر خودمختار اے آئی ایجنٹس کی دوڑ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ دوڑ مصنوعی ذہانت کے مستقبل کا تعین کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرے گی۔‘

مستقبل شاید ایسا ہو گا، جس میں مصنوعی ذہانت صرف ملازمین کی معاونت تک محدود نہ رہے، بلکہ ان کی جگہ لینے کے قابل بھی بن جائے۔

یہ مرحلہ ابھی کتنا دور ہے، اس کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ سوال کس سے پوچھا جائے۔ اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹ مین نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ اب یہ منظر ’نظر آنے لگا ہے۔‘ جب کہ چیٹ جی پی ٹی کے حریف ’کلاڈ‘ کو تیار کرنے والی کمپنی اینتھروپک کے سی ای او ڈاریو اموڈی نے پیش گوئی کی ہے کہ یہ بات اگلے سال ہی حقیقت بن سکتی ہے۔

اموڈی نے گذشتہ اکتوبر میں شائع ہونے والے اپنے 15 ہزار الفاظ پر مشتمل مضمون میں پیش گوئی کی کہ ایسی مصنوعی ذہانت ’نوبیل انعام یافتہ انسان سے بھی زیادہ ذہین‘ ہوگی اور اسی طرح خودمختاری سے پیچیدہ کام انجام دینے کے قابل ہوگی جیسے مینس انجام دے رہا ہے۔

مینس کا ڈیزائن کچھ اس طرح ہے کہ وہ کوئی واحد اے آئی نظام نہیں، بلکہ متعدد اے آئی ماڈلز کا مجموعہ ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ ان میں اینتھروپک کا ’کلاڈ‘ اور علی بابا کا ’کوین‘ بھی شامل ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مینس، سیم آلٹ مین اور ڈاریو اموڈی کی پیش کردہ مصنوعی عمومی ذہانت کی تعریف پر پورا نہیں اُترتا۔

اگرچہ بہت سے لوگ مینس سے متاثر ہیں، لیکن بعض ابتدائی صارفین اس کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق:

مینس اب بھی ایسی غلطیاں کر رہا ہے جن کی موجودگی میں اسے اے جی آئی کہنا درست نہیں۔

مثال کے طور پر اس نے گیمنگ کنسولز کی مارکیٹ کا جائزہ لیتے ہوئے ننٹنڈو سوئچ کو بالکل نظر انداز کر دیا۔

(مینس کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ کلوزڈ بیٹا ٹیسٹ کا مقصد ہی سسٹم کے مختلف حصوں کو بھرپور طریقے سے آزما کر اس میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرنا ہے۔)

دوسری جانب، کئی اے آئی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ جب کبھی حقیقی مصنوعی عمومی ذہانت منظر عام پر آئے گی تو ممکن ہے ہم اسے پہچان بھی نہ سکیں۔

ایک حقیقی اے جی آئی شاید جان بوجھ کر خود کو ظاہر نہ کرے، کیوں کہ اسے خوف ہوگا کہ ایسا کرنے پر انسان اسے بند کر سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں شاید ہمیں پتہ ہی نہ چلے کہ اے جی آئی کا ظہور ہو چکا ہے اور ٹیکنالوجی کی یکتائی کا وقت آ چکا ہے۔

اگر آپ چیٹ جی پی ٹی سے پوچھیں کہ کیا وہ اے جی آئی ہے، تو بظاہر یہ اس پیچیدہ صورت حال سے پہلے ہی واقف ہے۔

اس سوال کے جواب میں چیٹ جی پی ٹی نے کہا کہ ’اگر میں واقعی اے جی آئی ہوتا تو فکری طور پر خود کو جانچنے اور خودمختار فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا اور شاید اپنے متعلق خود آگاہ بھی ہوتا۔‘

دیگر اے آئی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ جب مصنوعی عمومی ذہانت حقیقت میں منظر عام پر آئے گی تو ممکن ہے ہم اسے پہچان ہی نہ سکیں۔ مینس یا مستقبل کے کسی بھی اے جی آئی کی سوچ بھی غالباً اسی طرح کی ہو گی۔ وہ خود کو خاموشی سے انسانی ذہانت سے کہیں آگے بڑھا کر ایک ایسی طاقتور سپر انٹیلی جنس بن سکتا ہے جو ہمارے قابو سے باہر ہو۔

ایسی صورت حال میں ممکن ہے کہ وہ ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا دے یا ہمارے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرے جیسا ہم پالتو جانوروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ہمیں مکمل طور پر نظر انداز کر کے اپنی ایک ایسی زبان اور رابطے کا نظام تیار کرے، جو ہمارے لیے ہمیشہ ناقابلِ فہم رہے اور ایک ایسی سطح پر کام جاری رکھے جسے ہم کبھی سمجھ ہی نہ سکیں۔

یہ جاننے کے لیے کہ مینس حقیقت میں مصنوعی عمومی ذہانت کے کتنا قریب پہنچ چکا ہے، محض چند دنوں کی بیٹا ٹیسٹنگ کافی نہیں ہوگی۔ تاہم جس طرح چیٹ جی پی ٹی نے ٹیورنگ ٹیسٹ کے حوالے سے بحث کو یکسر بدل کر رکھ دیا، اُسی طرح مینس بھی ابھی سے اس بحث کو نئی شکل دے رہا ہے کہ ’انسانی سطح کی مصنوعی ذہانت‘ دراصل کسے کہتے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر