افغانستان میں جنگ کے نہ ختم ہونے والے ایک سلسلے کے دوران ہر سال موسم سرما میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب بندوقیں کچھ عرصے کے لیے خاموش ہو جاتی ہیں۔
ایسے وقتوں میں طالبان جنگجو اپنی کلاشنکوفیں ایک طرف رکھ کر کرکٹ کے کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
طالبان جنگجو بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھی دوسرے کھیلوں کی نسبت کرکٹ میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کے زیر کنٹرول پُرامن علاقوں میں منعقدہ میچوں میں سینکڑوں تماشائی موجود ہوتے ہیں۔
طالبان نے ننگرہار صوبے کے ضلع خوگیانی میں گزشتہ موسم سرما میں کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کرایا تھا جسے بے حد پذیرائی ملی۔
خوگیانی میں موجود طالبان کمانڈر ملا بدرالدین کو کرکٹ بے حد پسند ہے۔
انہوں نے ٹیلی فون پر روئٹرز کو بتایا: ’جب افغانستان کی قومی ٹیم دوسری ٹیم کے ساتھ کھیلتی ہے تو ہم انہماک سے ریڈیو پر کمنٹری سنتے اور سوشل میڈیا کے ذریعے سکور سے خود کو آگاہ رکھتے ہیں۔‘
افغانستان میں پہلی بار انگریز سپاہیوں نے 19ویں صدی میں کرکٹ کھیلی تھی، پھر 1980 اور 1990 کی دہائی میں سویت حملے کے نتیجے میں پاکستان ہجرت کرنے والوں نے اسے اپنایا۔
اب پاکستانی سرحد سے ملحقہ افغان صوبوں میں کرکٹ کو بے حد پذیرائی ملتی ہے۔
1980 کی دہائی میں پشاور کے کچا گری مہاجر کیمپ میں افغان کرکٹ کلب بنانے میں مدد کرنے والے تاج ملوک خان دوسرے کرکٹروں کے ہمراہ 1990 کے طالبان دور میں چپکے سے افغانستان جاکر کرکٹ کھیلتے اور اس کی ترویج کرتے تھے۔
افغان قومی ٹیم کے سابق کھلاڑی ہستی خان نے بتایا: ’طالبان نے اپنے ابتدائی دورِ حکومت میں کرکٹ، فٹبال وغیرہ کوغیر اسلامی تصور کرتے ہوئے ختم کر دیا تھا۔‘
پچھلے دو سالوں میں کرکٹ میچوں پر دو حملوں کے باوجود اس کھیل نے افغانستان میں قدم جما لیے ہیں۔
شہرہ آفاق نام
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے 2017 میں افغانستان کو رکنیت دی تھی، جس کے بعد ٹیم نے آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے پچھلے مہینے آئرلینڈ کو پہلی مرتبہ ٹیسٹ میچ میں شکست دی۔
پانچ روزہ میچوں کے مقابلے میں افغانستان کی پرفارمنس مختصر فارمیٹ میں کہیں بہتر ہے اور سپن بولر راشد خان، جارحانہ بلے باز نبی عیسیٰ خیل انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) جیسے بڑے ٹورنامنٹ میں سٹار بن کر ابھرے ہیں۔
طالبان کی جانب سے منظم کھیلوں کی مخالفت 2001 میں تختہ الٹنے تک جاری رہی، جس کے باوجود کرکٹ جیسے کھیل ختم نہ ہو سکے بلکہ کئی پختون جنگجو اس کھیل کے دیوانے بنے۔
فٹبال کے برعکس، جسے نیکر پہن کر کھیلنے کی وجہ سے قدامت پسند حلقوں کی جانب سے ہمیشہ مزاحمت کا سامنا رہا، کرکٹ مقامی روایات کے مطابق مکمل پینٹ شرٹ میں کھیلی جاتی ہے۔
قومی ٹیم کے سابق بلے باز اور حال ہی میں طالبان کے زیر اثر کچھ علاقوں کا دورہ کرنے والے کریم صادق نے بتایا کہ انہیں کئی جگہوں پر جنگجوؤں نے گھیر لیا اور کرکٹ اور اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں سے متعلق سوال پوچھے۔
کریم نے اپنے موبائل فون سے ایک مختصر ویڈیو بھی بنائی تھی جس میں درجنوں کلاشنکوف بردار طالبان جنگجو قومی ٹیم پر اظہار خیال کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ویڈیو کلپ میں نظر آنے والے ایک جنگجو نے بتایا: ’مجھے تمام کھلاڑی اچھے لگتے ہیں لیکن راشد خان میرے پسندیدہ ہیں۔‘
راشد افغان قومی ٹیم میں سٹار پرفارمنس کے بعد آج کل آئی پی ایل میں سن رائزر حیدر آباد کی جانب سے کھیل رہے ہیں۔
ورلڈ کپ کا خواب
مئی سے جولائی تک انگلینڈ میں کرکٹ ورلڈ کپ شیڈول ہے اور ایسے میں افغانستان بڑی ٹیموں کو اَپ سیٹ شکست دینے کے لیے پرامید ہے۔
صوبہ کنڑ کی ایک ٹیم سے دوستانہ میچ کی تیاریوں میں مصروف جلال آباد کے نوجوان حضرت گل کہتے ہیں: ’ہماری ٹیم بہت مضبوط ہے اور میرا خواب ہے کہ افغانستان ورلڈ کپ گھر لے کر آئے۔‘
ایک طرف جہاں امریکی حکومت اور طالبان حکام کے درمیان امن مذاکرات جاری ہیں اور افغانستان 40 سالہ بدترین دور سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، وہیں کرکٹ ورلڈ کپ کے موقع پر حکومتی اہلکار اور وزرا قومی ٹیم کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے نظر آ رہے ہیں۔
صادق، جو طویل انجری کے بعد عالمی کپ کے مدنظر دوبارہ پریکٹس کر رہے ہیں، نے کہا: ’طالبان قومی ٹیم کے جیتنے پر اکثر سوشل میڈیا کے ذریعے انہیں مبارک باد دیتے ہیں۔‘
نسلی تقسیم
تاہم افغانستان میں کرکٹ کے لیے سب کچھ اچھا نہیں ہے کیونکہ اگر گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو کھیلوں کی مخدوش حالت زار سے ملکی معاملات کا پتہ چلتا ہے۔
افغانستان میں کرکٹ اور کُشتی کے مقابلوں پر متعدد مرتبہ خود کش حملے ہو چکے ہیں اور ملک میں نسلی تقسیم کے رنگ زندگی کے تمام معاملات پر چھائے نظر آتے ہیں۔
فارسی بولنے والے تاجک اور ہزارہ برادری کا خیال ہے کہ کرکٹ ملک کے جنوبی اور مشرقی حصوں میں غالب اور پوری تاریخ میں بادشاہ اور صدور دینے والے پشتونوں کا کھیل ہے۔
تاجک برادری کے اکثریتی صوبے پروان کے ایک دکان دار احمد جواد کو کرکٹ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’میں اس کھیل کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ یہ پشتون کھیل ہے جسے پشتون کھلاڑی کھیلتے ہیں، لہذا انہیں ہی اس کھیل سے لطف اندوز ہونے دیا جائے۔‘
2001 میں طالبان دور ختم ہونے کے بعد جب شمالی اتحاد نے کابل فتح کرلیا تو دوسروں کی طرح پاکستان میں کرکٹ سیکھنے والے دو بھائی صادق اور گل، شمالی اتحاد کے تاجک کمانڈروں کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت دینے پر راغب کرنے میں ناکام رہے تھے۔
گل بتاتے ہیں: ’2005 میں کابل میں صوبائی ٹورنامنٹ منسوخ ہونے کے بعد صدارتی محل کے حکام نے ہمیں کرکٹ چھوڑ کر افغان گارڈ میں شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔‘
اب جب کہ پورے ملک میں آئی پی ایل دیکھی جا رہی ہے اور ورلڈ کپ کی آمد آمد ہے تو گل کو ہوا میں تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے: ’ہمیں کئی سالوں تک حکومت کی ذرا بھی حمایت حاصل نہیں تھی، لیکن اب سبھی کرکٹ سے پیار کرتے ہیں اور ہم عالمی سٹیج پر افغانستان کا جھنڈا بلند کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں‘۔