ہوسکتا ہے کہ ایک خلائی لباس ایسا دکھائی نہ دیتا ہو جو زیادہ تر خواتین کام کے لیے پہنتی ہیں لیکن اس ہفتے جب خلائی لباس کے مناسب سائز کے مسئلے پر امریکی خلائی تحقیقتی ادارے ناسا کا خواتین کی خلا میں چہل قدمی کا منصوبہ تبدیل ہوا تو دنیا بھر میں کام کرنے والی متعدد خواتین کو اپنے تجربات یاد آگئے۔
خواتین کی جانب سے واقعات کے آن لائن تبادلے میں فٹنگ سے عاری وردی، مردوں کو سامنے رکھ کر تیار کیے گئے آلات کے ڈیزائن یا دفاتر میں خواتین کے لیے مختص جگہ کا ذکر تھا، جن میں ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا گیا۔
سوشل میڈیا پرخواتین نے بھاری بھرکم اوورآلز، سائز سے بڑے جوتوں، غلط ناپ کے دستانوں، چھاتی کے سائز کے مطابق بلٹ پروف جیکٹوں اور تعمیراتی کام کے مقامات پر چھوٹے سائز کے حفاظتی سامان کی قلت کا بھی ذکر کیا۔
کینیڈا میں مقیم ایک خاتون نے ٹویٹ کیا کہ وہ ایک ایمبولینس میں کام کرتی ہیں جس میں ڈرائیورکی نشست سے لے کر سٹریچر کے ہُک تک اوسط قد کاٹھ کے مرد کے لیے بنائے گئے ہیں۔
یہ خاتون کہتی ہیں: ’مجھے یہ ذاتی طور پر معلوم ہے اور جب میں نے خواتین کی خلا میں چہل قدمی کی منسوخی کے بارے میں سنا تومجھے بہت غصہ آیا کیونکہ مجھے ایسی صورت حال کا ذاتی تجربہ ہے۔‘
دوسری خواتین نے اس تنازعے کو دفاتر کے ماحول سے جوڑا اور عمارت کے اندر کم درجہ حرارت کا ذکر کیا گیا۔ تحقیق کے مطابق خواتین کا جسمانی درجہ حرارت نسبتاً کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے انھیں دفترمیں ایک اوسط مرد کے لیے رکھے گئے درجہ حرارت میں سردی لگتی ہے۔
نئی نئی ماں بننے والی خواتین کے لیے بچے کودودھ پلانے کی جگہ مختص کرنے کے بجائے باتھ روم میں دودھ پلانے کی مجبوری جیسے مسائل کا بھی ذکرکیا گیا۔ یہاں تک کہ پیشہ ورانہ تقریبات کے موقع پر مخصوص لباس کی بھی بات کی گئی۔
خلائی تحقیق سے وابستہ ایک ماہرطبیعات نے ٹویٹ کیا کہ وہ ایسی خواتین کی درد بھری آہیں سن سکتی ہیں جھنوں نے ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے ایک ایسی ٹی شرٹ مانگی جوانھیں پوری ہو۔
خلا میں چہل قدمی کے اوقات میں تبدیلی کا فیصلہ بلاشبہ اس سے زیادہ پیچیدہ تھا جیسا کہ بعض اوقات بیان کیا جاتا ہے۔ جو ادارہ کانگریس کے فنڈز پر چلتا ہے اسے نجی شعبے کے آجروں کے مقابلے میں مختلف رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔
ناسا نے کیو اینڈ اے پروگرام میں اس فیصلے کی وضاحت کی ہے۔ خلانورد این میکلین نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ ’کچھ موخرکیا گیا اور نہ ہی تبدیل۔ فیصلے کی بنیاد ان کی تجویز ہے۔ قائدین کومشکل فیصلے کرنے چاہئیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ ایسی ٹیم کے ساتھ کام کرتی ہوں جسے میرے فیصلے پر اعتماد ہے۔‘
ناسا کی وضاحت کے مطابق: ’این مکلین نے خلائی سٹیشن کے لیے روانگی سے قبل درمیانے اور بڑے سائز کے خلائی لباس میں تربیت مکمل کی۔ انہوں نے طے کیا کہ وہ تاریخی موقع پر بڑے سائز کا لباس پہنیں گی لیکن 22 مارچ کو خلا میں چہل قدمی کے بعد انھیں احساس ہوا کہ درمیانے سائز کا لباس زیادہ موزوں تھا، لہذا انہوں نے حفاظت کے پیش نظر اور تاخیر سے بچنے کے لیے منصوبے میں تبدیلی کی۔‘
ناسا کا کہنا ہے کہ درمیانے سائز کا لباس بھی موجود تھا، جسے خلا کے لیے تیار کرنے میں کم از کم بارہ گھنٹے کی ضرورت تھی۔
ترجمان ناسا سٹیفنی شیرہولز کہتی ہیں کہ خلانوردوں کے لیے لباس تیارکرنے سے قبل جسم کی اُس سے زیادہ مقامات کی پیمائش کی جاتی ہے۔ ناپ لینے کے لیے کئی سہولتیں ہوتی ہیں۔ لباس کوآٹھ مقامات پرحرکت دے کرکہنی کے لیے موزوں کیا جاسکتا ہے۔ دستانے کے سائز کے لیے 65 سہولتیں ہوتی ہیں۔
ترجمان کے مطابق خلائی سٹیشن پر موجود تین خلانوردوں میں سے دو خواتین ہیں۔ تینوں خلانوردوں کا تعلق ناسا کی اُس پہلی جماعت سے ہے جس میں خواتین کی نمائندگی 50 فیصد تھی۔ یہ جماعت 2013 کی تھی۔
ترجمان مزید کہتی ہیں: ’ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس بہترین ٹیمیں ہیں۔ بہترین فیصلے کرتے ہوئے مشن کے اہداف ایسے طریقے سے حاصل کیے جاسکتے ہیں جس میں خطرہ کم سے کم ہو۔‘
انہوں نے کہا: ’خلا میں ایسی خلانوردی ناگزیر ہے جس میں صرف خواتین ہوں۔‘
یہاں تک کہ ایسے مبصرین، جنہوں نے کہا کہ وہ فیصلے کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں، بتایا کہ انھیں معاملہ کتنا مانوس لگا۔ ایک ٹوئٹر صارف نے کہا: ’وہ سمجھتی ہیں کہ فیصلہ تعصب سے بالاتر ہے لیکن اس کے باوجود انھیں وہی افسردگی ہوئی جو انہیں اُس وقت ہوئی جب ملازمت ملی توان کے سائز کی وردی موجود نہیں تھی اور انہیں اپنے سائز سے تین گنا بڑے کپڑوں میں کام کرنا پڑا۔‘
کئی افراد نے حقوق نسواں کی علمبردار کیرولین کریاڈوپیریزکی کتاب کی طرف اشارہ کیا ہے، جس کا عنوان ہے: ’نظرنہ آنے والی خواتین: مردوں کے لیے بنی دنیا میں اعدادوشمارکا تعصب۔‘
مصنفہ لکھتی ہیں کہ کیسے متعدد صنعتیں اورشعبے ابتدا میں ہی مردوں کے لیے مخصوص ہوجاتے ہیں یا ان میں خواتین سے متعلق اعدادوشمار کافی نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر طیارہ تباہی کے ٹیسٹ میں استعمال ہونے والی ڈمیز کا سائزعام طور پر اوسط قد کاٹھ کے مرد کا ہوتا ہے۔ مرد کی اوسط قامت زرعی آلات کے سائز کو بھی متاثر کرتی ہے۔ پیشہ ورانہ صحت اورتحفظ کے شعبے میں ایسے اعدادوشمار بہت کم ہیں جو خواتین کو سامنے رکھ کر تیار کیے گئے ہوں۔
کریاڈوپیریز کہتی ہیں کہ ’میرے سوشل میڈیا پر یہ خبرچھائی ہوئی ہے، خواتین ایسی سٹوریز کا تبادلہ کر رہی ہیں جو مجھے بالکل حیران نہیں کرتیں‘۔ مصنفہ کے مطابق ’یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ ایسی خواتین کی موجودگی میں جو یہ کہہ رہی کہ یہ مسئلہ ان کے شعبے میں کس طرح ظاہر ہوا؟ اس معاملے کو ٹال دینا ناممکن ہوگیا ہے۔‘
تحفظ کے ماہرین کی امریکی سوسائٹی میں خواتین اور تحفظ سے متعلق گروپ کی سربراہ ایبے فیری نے لنکڈ اِن پر ایک مضمون میں لکھا: ’کوئی فرد جو تعمیراتی کمپنیوں کے لیے بیمہ پروگرامز پر کام کرتا ہے، اسے ایسی خواتین کا پتہ ہے جو دستانوں پر یا اوورآل کے نچلے کنارے پر ڈکٹ ٹیپ لگاتی ہیں۔‘
ایبے فیری کا کہنا ہے کہ آجر کو چاہیے کہ پست قد والی خواتین کو ایسے اوورل آلز دے، جو انہیں پورے آتے ہوں۔
صنعتی شعبے کی خواتین کے بارے میں ایبے فیری کہتی ہیں کہ اکثرخواتین کچھ نہیں کہتیں کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ کام کے ایک ایسے مقام پر توجہ ان پر مبذول ہوجائے جہاں پہلے ہی ان کی تعداد کم ہے۔ یہ خواتین ایسا سامان بھی قبول کرلیتی ہیں جوان کے سائز کا نہیں ہوتا اور پھر اس میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کرلیتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ایک اور مسئلہ تیارکنندگان کی جانب سے ہے۔ بعض اوقات ان کے پاس آرڈر کرنے کے لیے چھوٹے سائز کے سامان کی تعداد کم ہوتی ہے اور ایسی صنعت کے آجر، جہاں خواتین کارکنوں کی تعداد دس فیصد سے کم ہے، انہیں جگہ دینے پر تیار نہیں ہوتے۔
ایبے فیری کہتی ہیں کہ ’ناسا کی خبر نے اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے اورغیرارادی طورپر دوسرے شعبوں کا اصل مسئلہ اجاگر ہوگیا ہے۔ اس طرح کی مثالوں سے مسئلہ نمایاں کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر جگہ درپیش ہے۔‘