لاہور کے علاقے نواں کوٹ میں اتوار کو شادی کی تقریب میں پیسے لوٹنے کا شوق 11 سالہ ذیشان کی جان لے گیا۔
ذیشان کو تقریب میں موجود کچھ نامعلوم افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد اس کی حالت نازک ہونے پر میو ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔
پانچ بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ذیشان دوسری جماعت کا طالب علم تھے جبکہ کچھ روز سے وہ اپنے رکشہ ڈرائیور والد عظیم کا ہاتھ بٹانے کے لیے صوفے بنانے والی ایک دکان پر کام کر رہا تھا۔
عظیم نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اتوار کی شب اپنے بیٹے اور دیگر خاندان کے افراد کے ہمراہ بہن کے گھر سے واپس آرہے تھے۔ ان کے گھر کے قریب شادی کی ایک تقریب چل رہی تھی۔ ذیشان تقریب میں پیسے لوٹنے چلا گیا جبکہ باقی لوگ واپس گھر آ گئے۔
عظیم نے بتایا کہ ذیشان نے مرنے سے پہلے انہیں بتایا کہ رش میں اسے کسی کا دھکا لگا اور وہ ایک شخص پر جا گرا جس سے اس کے کپڑے گندے ہو گئے اور اس نے ذیشان پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی۔
عظیم کا کہنا ہے کہ ذیشان کو وہاں موجود کسی شخص نے نہیں بچایا بلکہ محلے کے ایک لڑکے نے انہیں آکر بتایا کہ ذیشان کو کچھ لوگ مار رہے ہیں۔
ذیشان کو میو ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ پیر کو اپنی جان کی بازی ہار گیا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس کی موت سینے پر دباؤ پڑنے سے ہوئی جب کہ اس کے جسم کے مختلف حصوں پر گھونسوں کے نشانات بھی تھے۔
پولیس نے مقتول کی والد کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بچے پر تشدد کے ٹھوس شواہد اور حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیقات جاری ہیں جبکہ دولہا اور اس کے والد کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے تاکہ اصل ملزمان تک پہنچا جاسکے۔
دوسری جانب ذیشان کی موت سے عوام میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر شفقت ہما کے خیال میں اس قسم کے جارحانہ رویے کو اختیار کرنے کے مختلف عوامل ہوسکتے ہیں جن میں اپنی بڑائی ثابت کرنا، دوسروں کو نیچا دکھانا یا کسی ڈر یا خوف کے جواب میں اس طرح کا ردعمل سامنے آنا شامل ہے۔
ڈاکٹر شفقت کہتے ہیں کہ جارحانہ رویے پیدا ہونے میں دو بڑے عوامل کار فرما ہوسکتے ہیں۔ ایک ذاتی اور دوسرا معاشرتی یا ماحولیاتی۔
ذاتی عوامل میں کوئی ذہنی یا جسمانی بیماری، موروثیت، نشہ آور چیزوں کا استعمال جبکہ معاشرتی عوامل میں تعلیم و تربیت، پرورش، رشتوں کے مسائل، گھریلو مسائل اور ملکی مسائل وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر شفقت کے مطابق ذیشان کے کیس میں ملزم شاید اپنی بڑائی یا اپنے طاقت ور ہونے کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔
ان کے خیال میں معاشرے میں تحمل پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے پہلا قدم گھر سے شروع ہو گا جہاں والدین اپنے بچوں کی پرورش اس انداز میں ہرگز نہ کریں جہاں انہیں غصہ کرنے والے اچھے لگنے لگیں اور انہیں یہ یقین ہو جائے کہ ہر مشکل کا حل صرف غصہ دکھا کر یا مار پیٹ سے ہی نکلے گا۔