اے ایف پی: عراق کے وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی اس ہفتے امریکہ کے دورے کی تیاری کر رہے ہیں جہاں وہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ سے پہلی بار ملاقات کریں گے۔
دوسری جانب عراق میں ایران نواز جنگجوؤں نے امریکی اہداف پر حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
واشنگٹن اور تہران عراق میں اثرورسوخ کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں جب کہ ایران نواز دھڑوں اور عراق کے وزیر اعظم جو امریکہ کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھتے ہیں ان کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔
عراقی وزیراعظم جمعرات کو امریکی صدر ٹرمپ سے پہلی بار ملاقات کریں جس کے دوران عراق میں موجود پانچ ہزار امریکی فوجیوں کی موجودگی ایجنڈے میں سرفہرست ہوگی۔
الکاظمی نے مئی میں وزارت عظمیٰ سنبھالی تھی۔ انہیں حشدالشعبی کے دھڑوں کی جانب سے مسائل کا سامنا ہے۔ حشدالشعبی عراق کے شیعہ پیراملٹری گروپوں کا اتحاد ہے جو ایران کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
حشدالشعبی عراقی حکومت میں شامل ہے اور اس کے سیاسی نمائندوں نے امریکی فوج کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب حشد نے امریکی اہداف پر تازہ حملوں سے تعلق کی تردید کی ہے لیکن ویڈیوز اور سوشل میڈیا پر کیے گئے دعووں سے دوسرے ناموں سے سرگرم گروپوں کے ذریعے اس کے ملوث ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔
یونیورسٹی آف شکاگو کے پیئرسن انسٹییوٹ سے منسلک رمزی مردینی نے کہا ہے کہ نئے عسکریت پسند گروپوں میں شامل افراد کے حوالے سے غالب امکان یہی ہے کہ وہ پہلے سے موجود ان مسلح گروپوں سے لیے گئے ہیں جو حشدالشعبی کا حصہ تھے۔
عراقی وزیراعظم الکاظمی اپنے پیشرو نورالمالکی کے مقابلےمیں واشنگٹن کے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ انہوں نے ان سرحدی چوکیوں پر قبضہ کرکے مسلح گروپوں کو ناراض کر دیا ہے جہاں سے یہ گروپ سمگلنگ کا پرکشش نیٹ ورک چلا رہے تھے اور تاجروں پر ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔
حالیہ ہفتوں کے دوران حملوں میں اضافہ
عراق میں اکتوبر سے لے کر جولائی کے آخر تک مسلح دھڑوں نے امریکیوں کے اہم مقامات پر 39 حملے کیے۔ اگست کے شروع میں ٹرمپ کی جانب سے عراقی وزیراعظم سے مجوزہ ملاقات کی تصدیق کے بعد ان حملوں میں تیزی آ گئی۔ چار سے 16 اگست تک امریکی فوج کو سامان سپلائی کرنے والے عراقی قافلوں، امریکی اڈوں جہاں فوجی مقیم ہیں اور امریکی سفارت خانے پر 13 بم اور راکٹ حملے کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک انٹیلی جنس ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اگرچہ ان حملوں کے اثرات محدود تھے لیکن ان سے طاقت کا اظہار ہوتا ہے۔ جنوبی عراق میں ایک قافلے پر حملے کے بعد ایک شخص کو گرفتار کیا گیا تھا جن کے قبضے سے بم اور حشدالشعبی کا شناختی کارڈ برآمد ہوا تھا جس کی مدد سے انہوں تلاشی دیے بغیر چوکیاں عبور کیں۔
دوسری طرف مردینی نے کہا ہے کہ کچھ حملے دوسرے ناموں والے گروپوں نے کیے جن میں انقلابیوں کی لیگ بھی شامل ہے۔ یہ لوگ نئے جھنڈوں تلے کام کرتے ہیں تا کہ مستحکم عسکریت پسند قیادت کو چھپایا اور ممکنہ جوابی کارروائی سے بچایا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ گروپ حکومت سے باہر سرگرم ہیں تو اس بات کا امکان کم ہے امریکہ عراقی حکومت کو ذمہ دار قرار دے کر اسے سزا دے۔
حملوں میں اضافہ وزیراعظم الکاظمی کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ وہ صرف چھاپوں اور جنگجوؤں کو گرفتار کرکے حملے نہیں روک سکتے۔ جون کے آخر میں حشد کے ایک دھڑے حزب اللہ بریگیڈزسے تعلق رکھنے والے 14 جنگجوؤں کو امریکیوں پر حملوں پر گرفتار کیا گیا تھا۔
جولائی میں وزیراعظم الکاظمی کے قریبی دوست ہشام الہاشمی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے حشد پر تحقیق کی تھی۔ ان کے قتل کو وزیراعظم کے لیے ایک پیغام کے طور پر دیکھا گیا تھا تاہم ان کے قتل کی تحقیقات میں ابھی تک کچھ سامنے نہیں آیا۔