خبررساں اداروں کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق بھارتی پارلیمانی کمیٹی نے سیاسی تعصب اور ملک میں نفرت انگیز مواد پھیلانے میں کردار ادا کرنے کے الزامات کے حوالے سے فیس بک انڈیا کے ایگزیکٹوز سے کڑے سوالات کیے ہیں۔
بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی سماعت میڈیا میں سامنے آنے والے ان الزامات کے بعد کی گئی جن میں فیس بک پلیٹ فارم پر مسلم اقلیت کے خلاف نفرت انگیز مواد پھیلانے کی اجازت دینا اور بھارت میں اس کے اعلیٰ پالیسی ساز کی وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حمایت کرنا شامل ہے۔ سوشل میڈیا کمپنی نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین ششی تھرور نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت کے بعد کمیٹی نے فیس بک کے نمائندوں کے ساتھ اس بارے میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
تاہم کانگریس پارٹی کے رکن ششی تھرور نے سماعت کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔
In response to overwhelming media interest in the meeting of the ParliamentaryStandingCommittee on InformationTechnology that just adjourned, this is all I can say: we met for some three&a half hours & unanimously agreed to resume the discussion later, incl w/ reps of @Facebook.
— Shashi Tharoor (@ShashiTharoor) September 2, 2020
بھارت فیس بک کے لیے دنیا میں سب سے بڑی مارکیٹ ہے جہاں اس کے تقریباً 32 کروڑ سے زیادہ صارفین ہیں۔ فیس بک کی ملکیتی کمپنی واٹس ایپ کے بھی بھارت میں 40 کروڑ سے زیادہ صارفین ہیں۔
چونکہ ان پلیٹ فارمز کا استعمال پورے ملک میں پھیل چکا ہے اس لیے فیس بک اور واٹس ایپ بھارتی سیاسی جماعتوں کے لیے زبردست میدان جنگ بن چکے ہیں۔ اقلیتی مسلم آبادی پر جھوٹے الزامات اور ان کے خلاف نفرت انگیز آن لائن مہم چلانے پر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت کے قائدین کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔
بی جے پی اور اس کے رہنماؤں نے بارہا ان الزامات کی تردید کی ہے اور اس کے برعکس فیس بک پر بھارت نواز مواد کو سنسر کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
منگل کو وزیر ٹیکنالوجی روی شنکر پرساد نے فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ کو خط لکھا اور کہا کہ یہ پلیٹ فارم دائیں بازو کے صارفین کی جانب سے شائع کردہ مواد کو سنسر کر رہا ہے۔
اگست میں کانگریس پارٹی نے زکربرگ کو دو خط لکھے تھے۔
بھارت کی مرکزی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے امریکی اخبار 'وال سٹریٹ جرنل' میں شائع ہونے والی ایک انکشافی رپورٹ کے بعد فیس بک انتظامیہ سے ان الزامات کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندو قوم پرست حکمران جماعت کے سیاست دانوں کو اس پلیٹ فارم پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔
اس سے قبل امریکہ کے معتبر اشاعتی ادارے 'وال سٹریٹ جرنل' کی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کس طرح وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت کے رکن ٹی راجا سنگھ نے اپنے ذاتی فیس بک پیج کا استعمال کرتے ہوئے روہنگیا تارکین وطن کو گولی مارنے اور مساجد گرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں برس مارچ میں فیس بک کے داخلی نگرانی کے شعبے نے اس اکاؤنٹ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے راجا سنگھ پر فیس بک کے استعمال پر پابندی لگانے کی سفارش کی تھی تاہم بھارت میں کمپنی کی پبلک پالیسی کی اعلیٰ ترین عہدیدار انہکی داس نے بی جے پی کے رہنماوں پر 'فیس بک کے نفرت انگیز مواد کے اصولوں کو نافذ کرنے کی مخالفت کی' اگرچہ یہ اس مواد کے معاملے کو کمپنی میں اندوری طور پر اٹھایا گیا تھا۔
دوسرے خط میں کانگریس پارٹی نے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے 'قانون سازی اور عدالتی کارروائی' پر غور کر رہی ہے کہ کوئی 'غیر ملکی کمپنی ملک میں معاشرتی عدم استحکام کا باعث نہ بن سکے۔'
فیس بک کے ترجمان نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
21 اگست کو کمپنی نے مودی کی پارٹی کے بارے میں کسی بھی جانبداری کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کھلا، شفاف اور غیر جانبدار پلیٹ فارم ہے۔
کمپنی نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو حالیہ ای میل میں کہا کہ وہ 'عالمی سطح پر کسی کی بھی سیاسی حیثیت یا پارٹی وابستگی کی پرواہ کیے بغیر مواد میں اعتدال پسندی کی پالیسیاں نافذ کرتی ہے۔‘
بھارت میں فیس بک اور واٹس ایپ کو فرقہ وارانہ کشیدگی کے دوران اقلیتی گروپوں پر مہلک حملوں کو بھڑکانے اور نفرت انگیز مواد کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں کام کرنے والی تحقیقی تنظیم ’ایکولیٹی لیبز‘ کے 2019 کے تجزیے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ فیس بک پر مسلم مخالف مواد پھیلانے والے گروپوں میں مودی کی پارٹی کے حامی شامل ہیں یا ان کا تعلق ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے تھا۔
اس میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ فیس بک کو رپورٹ کیے گئے 93 فیصد نفرت انگیز مواد کو نہیں ہٹایا گیا۔
ایکولیٹی لیبز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھنموزی سونندراراجن نے کہا کہ فیس بک میں خود سے نفرت انگیز مواد پھیلانے سے روکنے کی کم صلاحیت موجود ہے اور وہ کام کرنے میں پیچیدہ اور سست ہے۔
انہوں نے کہا: ’انہیں پرتشدد رجحان رکھنے صارفین کو ہٹانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ یہ ان کے کاروباری مفاد میں نہیں۔'