انتظار کی گھڑیاں ختم ہوچکی ہیں اور طالبان اور افغان حکومت کے نمائندے بین الاقوامی برادری کے زیراہتمام منعقدہ بین الاقوامی افغان امن مذاکرات میں قطر کے درالحکومت دوحہ کے شیراٹن ہوٹل پہنچ گئے ہیں تاکہ باضابطہ طور پر آغاز کیا جاسکے۔
عبدالحکیم حقانی کی سربراہی میں طالبان کی مذاکرات کار ٹیم اور قومی سلامتی ایجنسی کے سابق سربراہ معصوم ستانکزئی کے زیر قیادت افغان حکومت کی 21 مذاکراتی ٹیم کے ارکان اس لگژری ہوٹل کے ایک ہال میں اپنی نشستوں پر آمنے سامنے بیٹھنے کے لیے منٹ گن رہے ہیں۔
دونوں فریقین کے مذاکرات کاروں کے علاوہ سینئر افغان اور بین الاقوامی عہدیدار ہوٹل میں قیام پذیر ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو، قطر کے تمیم الثانی، اعلی سطحی قومی مفاہمت کونسل کے چیئرمین عبد اللہ عبد اللہ اور کچھ ممالک کے خصوصی مندوب چند منٹ بعد اس تاریخی اجلاس کے باضابطہ آغاز کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں ہوں گے۔
کچھ وزرائے خارجہ جو ذاتی طور پر قطر کا سفر نہیں کرسکے ہیں انہیں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے مذاکرات سے جوڑا جائے گا۔
عبداللہ نے نامہ نگاروں کو بتایا: ’ہمیں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کی امید ہے۔ ایک یا دو دن میں کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ معاملات پیچیدہ ہیں اس میں وقت لگتا ہے لیکن اب وقت ضائع نہیں ہونا چاہیے۔‘
افتتاحی ملاقات کے بعد دونوں فریقن کے نمائندوں سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ کم سے کم ایک ہفتے کے اندر مزید تفصیلی بات چیت کریں اور مذاکرات کے دوسرے دور کا وقت اور مقام واضح کریں۔
40 سالہ جنگ کے خاتمے اور افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی راہ ہموار کرنے کے تاریخی بین الافغان اجلاس کے پہلے دور میں علاقائی طاقتیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔
چھ ماہ قبل طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر پہنچنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس دوران افغانستان میں کوئی امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا تھا اور جلد ہی اس ملک میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم ہو کر تقریبا 4 چار ہزار ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ تمام فریقین باضابطہ بین الافغان مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں اور مائیک پومپیو کو بات چیت میں حصہ لینے کے لیے قطر کا سفر کرنے پر فخر محسوس ہوگا۔
یہ جنگ بندی ایک سیاسی روڈ میپ اور بالآخر پائیدار امن کے حصول کا سب سے بڑا موقع ہے۔
عبد اللہ عبداللہ نے ٹویٹ کیا: ’بین الافغان بات چیت کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے میں دوحہ پہنچ چکا ہوں۔ اپنے قیام کے دوران میں تقاریب میں شرکت کرتا ہوں اور لیکچر دوں گا۔ میں میزبان ملک کے رہنماؤں، وفود کے سربراہوں اور شریک ممالک کے نمائندوں سے بھی ملاقات کروں گا۔‘
عبداللہ عبداللہ کے ہمراہ قائم مقام وزیر خارجہ حنیف اتمر اور وزیر مملکت برائے امن سید سعادت منصور نادری بھی موجود ہوں گے۔
دوسری جانب طالبان کے 21 رکنی وفد کے علاوہ طالبان کے سابق مذاکرات کار ٹیم کے انچارج ملا عبدالغنی بھی افتتاحی اجلاس میں شرکت کریں گے اور توقع کی جارہی ہے کہ وہ عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملاقات کریں گے۔
دونوں فریقوں نے امید کا اظہار کیا ہے کہ یہ موڑ ملک میں پائیدار اور عالمی امن کا باعث بنے گا۔
قطری وزارت خارجہ نے کہا: ’افغان عوام کے مختلف طبقات کے مابین یہ براہ راست بات چیت خاص طور پر اس سال کے شروع میں امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدے پر دستخط کے بعد ملک میں پائیدار امن کی سمت اہم قدم ہے۔
نیٹو، برطانیہ، یورپی یونین، ناروے اور افغان امن عمل کی پیروی کرنے والے بہت سارے ممالک نے اس عمل کی کامیابی کے لیے امید کا اظہار کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن سب سے اہم ردعمل میں سے ایک امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کا ہے جو ان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے کئی روز سے قطر میں موجود ہیں۔
خلیل زاد افغان امن عمل میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ 18 ماہ تک بات چیت کے بعد وہ ایک تاریخی معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے جس کے تحت افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا، القاعدہ کے ساتھ طالبان کے تعلقات منقطع ہونا اور انٹرا افغان مذاکرات کا آغاز ہو رہا ہے۔
انہوں نے اپنے حالیہ ٹویٹ میں کہا: ’میں 12 ستمبر کو افغانستان میں قیام امن کے لیے قطر، افغانستان اور طالبان کے اعلان کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ چالیس سالہ جنگ کو ختم کرنے کا یہ ایک تاریخی موقع ہے جس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور اس نے لاتعداد افغانوں کی جانیں لی ہیں۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے طویل اور مشکل راستہ طے کیا گیا ہے۔ کوئی اہم کامیابی آسانی سے حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ اب یہ افغان رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس لمحے کو بروئے کار لائیں اور اس ظالمانہ جنگ کو ختم کریں۔‘
افغان حکومت جنگ بندی کے معاملے اور جمہوری نظام کے تحفظ جب کہ طالبان کو اسلامی نظام کی بحالی کے مطالبے کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر رہے ہے۔
خلیل زاد کا کہنا ہے کہ ’سمجھوتے کے بغیر کوئی سیاسی معاہدہ نہیں ہوسکتا ہے۔ افغانستان کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنے اور عقائد کو مسلط کرنے کی کوشش طاقت کے ذریعے جنگ کا باعث بنتی ہے اور ملک کو دوسروں کی مداخلت کا خطرہ بنا پڑتا ہے۔‘
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغان امن مذاکرات کا حتمی مقصد ہمیشہ کے لیے ہتھیار ڈالنا ہونا چاہیے۔