پاکستان کرکٹ بورڈ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ انگریزی سٹائل میں اردو بولنے والے ارباب اختیار اب بورڈ کے آئیکون بن چکے ہیں۔ اردو سٹائل میں انگلش پر ہاتھ صاف کرنے والے ملازمین بھی خوش ہیں کہ نہ ان کی سمجھو نہ اپنی سمجھاؤ بس جہاں تک ہوسکے جھاڑو پھیرتے جاؤ۔
بورڈ کا میڈیا ڈپارٹمنٹ ان ایام کرونا (کورونا) وائرس میں ضرورت سے زیادہ فعال ہوگیا ہے۔ کچھ نہیں مل رہا تھا تو کھلاڑیوں کی بےتکی باتیں ہی یوٹیوب پر اپ لوڈ کرنا شروع کر دیں۔ گھر بیٹھے بیروزگار نوجوانوں نے ابا کے پیسوں پر کیبل انٹرنیٹ پر یہ انٹرویو کلک کر کر کے کچھ نہیں تو بورڈ کا میڈیا ڈپارٹمنٹ ضرور نہال کر دیا۔ میڈیا چیف پھولے نہیں سماتے اور ہر بےتکی ویڈیو پر آکسفورڈ انگلش میں تحسین بھری ٹویٹ کر دیتے ہیں۔
اب کسی کو کیا پتہ کس نے کتنا دیکھا !!
کھلاڑیوں سے دل بھرا تو کوچز میدان میں آگئے۔ جس کوچ کا جتنا بس چلا اس نے اتنی ہی دوسرے کے کاموں میں دخل اندازی کی۔
بورڈ کی میڈیا کانفرنس بھی ایک تھری مین شو ہوتا ہے جہاں تین جید صحافی سب سے پہلے سوال کے لیے مدعو کیے جاتے ہیں۔ ان کے سوال بھی ایسے ہوتے ہیں جیسے پوچھ نہیں رہے ہنسا رہے ہوں۔۔۔
کچھ وقت بچتا ہے تو صبح شام تنقید کے تیر برسانے والے چند تیز طرار اینکرز کو موقع ملتا ہے ورنہ بقیہ تو بس سوال کے لیے درخواست کرتے رہتے ہیں لیکن میڈیا مینجر یہ کہہ کر ختم کر دیتےہیں اچھا جی اب کل ملاقات ہوگی!!! یعنی بورڈ نے بھی صحافیوں کی درجہ بندی کی ہوئی ہے۔ جو جتنا شور مچاتا ہے اس کو موقع دے کر خاموش کرا دو۔
اس پرسکون، پرامن اور دل نشین ماحول میں صورت اور سیرت سے مسکین اقبال قاسم کو نجانے کیا سوجھی کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر اچھال دیا اور سارا جشن کرکرا کر دیا۔
اچھے خاصے کرکٹ کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ گھر بیٹھے کچھ ہدئیے بھی آ رہے تھے۔ کہیں کبھی کبھی مہمان خصوصی بھی بن جاتے تھے اور اگر قسمت سے کوئی میچ ہو تو ایک دو وی آئی پی پاس بھی مل جاتے تھے۔ بھائی اور کیا چاہیے تھا؟
آپ سے پہلے والے تو اس سے بھی کم پر راضی تھے کیونکہ وہ تو پہلے ہی مائی باپ ہیں۔ آپ نے بھی ایک میچ ریفری کی تعیناتی کو مسئلہ بنا کر استعفی دینے کی زحمت کر دی۔ حالانکہ آپ تو بغیر استعفی کے ہی مستعفی تھے۔ بھلا اس کا بھی کیا زندوں میں ذکر جس کے بغیر نیچے والے سارے کام بالا ہی بالا کر لیں۔ آپ تو شروع دن سے ہی سپیئر پارٹ تھے اس لیے بناؤ سنگھار کر کے نیشنل بینک کے میوزیم میں رکھ دیا تھا کہ آتے جائیں اور دیکھتے جائیں!
جو لوگ آپ کو لائے تھے وہ اس یقین کے ساتھ لائے تھے کہ جب بھری جوانی میں خون کے گھونٹ پیتا رہا لیکن زباں بند رکھی تو اب تو ویسے بھی اللہ اللہ کرنے کے دن ہیں اب کیا بولے گا۔ اپنی مرضی کے چراغ چاہے جلائیں یا بجھائیں۔
ایسے میں آپ کا شور مچا کے جانا کچھ اچھا نہیں لگا۔ اور مچایا بھی شور کب؟ جب سر پر سوار بھی وہی ہیں جو سارے کیرئیر میں آپ کی تذلیل کرتے رہے اور آپ صبر کرتے رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب بورڈ کو پھر ایک بے زبان گائے کی تلاش ہے!
جو بولے نہ چیخے اور نہ رسی تڑاکے بھاگے
کرکٹ کمیٹی کے چیئرمین کے لیے تو خیر بہت سے تیار ہیں اور بے موسم کی برسات کی طرح بورڈ پر داد و تحسین کی بارش بھی کر رہے ہیں کہ شاید فال نکل آئے لیکن اتنی تگ و دو کے بعد بھی بھول جاتے ہیں رسی وہیں سے ہلنی ہے جس نے ایک ذرا سی بھول پر قاسم عمر کو قصہ پارینہ بنا دیا تھا کیونکہ وہ خود کہتا ہے ’میں بھولتا نہیں!!!‘ حالانکہ بھول تو وہ اسے بھی گئے جس کےکاندھوں پر چڑھ کر گراؤنڈ پہنچے تھے۔
خیر چھوڑئیے کس کس کو یاد کریں یہاں تو عمرو عیار کی زنبیل بھری ہوئی ہے۔
کرکٹ کمیٹی کے نئے چیئرمین کے لیے مہان صحافیوں نے ظہیر عباس، انتخاب عالم اور سلیم یوسف کی نوید دی ہے۔ ان میں سے کون منتخب ہوتا ہے یہ تو ابھی پتہ نہیں لیکن ایک بات ہے کہ منہ میں دانت ہوں نا ہوں۔ لیکن انتخاب عالم بڑھاپے میں بھی امیدوارہیں!!!
ظہیر عباس کا بننا اس لیے مشکل ہے کہ وہ بولتے ہیں اور بہت بولتے ہیں اور اپنی مرضی سے سب کچھ کرتے ہیں اس لیے ان کا وجود ان کے لیے ناگوار ہوگا جو پہلے سے سکرپٹ بنا کر رکھتے ہیں۔
خاموش، بردبار اور پروقار سلیم یوسف ان تمام امیدواروں میں سب سے موزوں ہیں۔ بولتے بھی کم ہیں اور دخل اندازی بھی کم کرتے ہیں۔
اپنے کپتان سے ٹائیگر کا ٹائیٹل حاصل کرنے والے سلیم یوسف کو پاکستان کرکٹ نے صرف اتنا ہی اجر دیا ہے کہ ان کے نام پر ایک ایسی سڑک کر دی ہے جسے سڑک کہنا مناسب نہیں۔ ان کی خدمات تو بہت ہیں لیکن اپنے کیرئیر میں کپتان کا کٹ بیگ اٹھانے کے لیےمشہور سلیم سے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ وہ ایک اچھے کوچ اور منتظم ہوسکتے تھے لیکن کم گوئی انہیں مار گئی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ ان تین کے علاوہ کسی اور کو بھی بنا سکتا ہے لیکن شرط وہی ہوگی چیئرمین بن جاؤ لیکن بے زبان گائے کی طرح
نہ کچھ بولو نہ پوچھو۔ ۔۔۔ بس خاموشی سے دیکھتے رہو۔