گلگت بلتستان کے مقامی رہنما عبدالحمید نے بھارتی خفیہ ایجنسی را سے ’پیسے لینے‘ اور نوجوانوں کو’گمراہ‘ کرنے پر معافی تو مانگ لی لیکن کیا ان کے معافی مانگنے سے گلگت کے لوگ مطمئن ہو سکیں گے؟
بالاورستان نیشنل فرنٹ حمید گروپ کا قیام 1995 میں عمل میں آیا تھا اور اس کے بانی عبدالحمید خان سنہ 1999 میں خودساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
انہوں نے مختلف ملکوں میں 20 سال گزارنے کے بعد آٹھ فروری 2019 کو غیر مشروط طور پر خود کو پاکستانی سکیورٹی حکام کے حوالے کر دیا تھا۔
لگ بھگ ایک سال بعد نو ستمبر 2020 کو انہوں گلگت بلتستان کے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
ذرائع کے مطابق بلاورستان نیشنل فرنٹ نواز خان ناجی اور عبدالحمید خان نے مل کر بنائی تھی۔ نواز خان ناجی نے سیاست اور عبدالحمید خان نے ’انتشار‘ کا راستہ اپنایا اور یوں ان کے راستے الگ ہو گئے۔
عبدالحمید خان نے ساتھیوں سمیت 14 اگست 1997 کے دن بلیک جوبلی منانے کا اعلان کیا 14 اگست 1997 کو قیام پاکستان کے 50 سال مکمل ہو ئے تھے۔
یاد رہے اب بلاورستان نیشنل فرنٹ حمید گروپ نیکٹا کی جانب سے کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق عبدالحمید خان مئی 1999میں نیپال کے لیے وزٹ ویزے کے حصول میں نہ صرف کامیاب رہے بلکہ کراچی ایئرپورٹ سے نیپال نکل گئے۔
بقول عبدالحمید خان کے نیپال میں را کے ایک ایجنٹ سے معاملات طے کر کے ہندوستان اور پھر را کے نیٹ ورک سے پیسے لے کر 20 سال تک گلگت بلتستان میں نوجوانوں کو پاکستان سے ’متنفر‘ کرنے کی سازشوں میں مصروف رہے۔
عبدالحمید خان کا کہنا ہے کہ وہ را کے چیف کے ساتھ بھی ملاقات کر چکے ہیں اور را کی خواہش تھی کہ عبدالحمید خان کے ذریعے گلگت بلتستان میں تخریب کاری کے لیے نیٹ ورک منظم کیا جا سکے، جس کے لیے بھارت کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کی سرحد پر ریڈیو سٹیشن کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں سے پاکستان کے خلاف منفی اور ذہریلا پروپیگنڈا تواتر کے ساتھ کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستان سے متنفر کیا جا سکے۔
دوسری جانب عبدالحمید خان کے کسی ایک بھی ساتھی یا ورکر پر اسلحہ اٹھانے یا مذہبی فسادات کی راہ ہموار کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی کوشش کا کوئی ثبوت نہیں ملا، البتہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال اور لیٹریچر کے ذریعے آزادی کی تحریک تیز کرنے کے لیے منظم طریقے سے مہم چلائی گئی۔
ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھانے والوں کو عام معافی اور فراری کمانڈرز کے ہتھیار ڈالنے کی کوریج قومی میڈیا کے ذریعے کی جاتی رہی اور پاکستان بھر میں ریاستی اداروں کے اس اقدام کو سراہا گیا لیکن مقام حیرت ہے کہ اپنے کیے پر ندامت اور شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان زندہ باد اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگانے والے عبدالحمید خان کو اس عمل (پاکستان زندہ باد) پر لعن طعن کر رہے ہیں۔
سینیئر صحافی شبیر میر جو ان سے ملاقات کرنے والے صحافیوں میں سے ہیں کا عبدالحمید خان کے حوالے سے کہنا ہے کہ انھوں نے ملاقات میں پاکستان سے اپنی خودساختہ جلاوطنی کا احوال بیان کیا کہ وہ کیسے پاکستان سے نیپال گئے اور پھر وہاں سے بھارت کی ایمبیسی سے رابطہ کیا۔
عبدالحمید خان نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ پھر وہاں سے بھارت چلے گئے اور کیسے انہیں بھارت کی خفیہ ایجنسی را کی طرف سے پیسے بھی ملتے رہے اور ان کی ملاقات را کے چیف سے کرائی گئی۔
’اس دوران ان کا بھارت آنا جانا لگا رہا۔ را کے چیف نے گلگت بلتستان میں انتشار پھیلانے کا کہا جو انہوں نے ٹھکرا دیا کیونکہ وہ ایک سیاسی کارکن ہیں۔ اس کے بعد وہ جرمنی چلے گئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شبیر میر کا کہنا تھا کہ یہ پاکستانی اداروں کے لیے بڑی کامیابی ہے جو عبدالحمید خان کو واپس لانے میں کامیاب ہو گئےکیونکہ وہ ایک ’ایسے انسان ہیں جو ریاست مخالف سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔‘
دوسری جانب گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور عوامی ایکشن کمیٹی ضلع غذر کے چیئرمین راجہ میر نواز میر عبدالحمید خان کو ’ڈبل ایجنٹ‘ قرار دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’عبدالحمید خان نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ را سے پیسے لیتے رہے ہیں۔ ان کو ایسے باعزت لا کر گلگت بلتستان میں بٹھانا گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے۔ اپنے حق کے لیے بولنے پر بابا جان جیل میں اور انڈین ایجنسی را کے ہاتھوں کھلونا بننے والا قانوں کی گرفت سے آزاد ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ وہ انسان ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کے گھر اجڑ گئے۔ لوگوں پہ غداری کا داغ لگا اور ان کے پاسپورٹ بلاک ہو گئے۔‘
ان کے جواب میں عبدالحمید خان کے بیٹے عبدالمجید خان شیر جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں اور روس میں مقیم ہیں نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے۔
ویڈیو میں ان کا کہنا ہے کہ ’میرے والد نے جیلیں کاٹی ہیں۔ کسی نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا جو اصل قوم پرست ہیں وہ ان کے خلاف کچھ نہیں بولتے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’جہاں تک زندگیاں برباد کرنے کا تعلق ہے۔ میرے والد نے کسی کی زندگی برباد نہیں کی۔ بلکہ لوگوں کی زندگیاں سنور گئی ہیں۔ ان کا ساتھ دینے والے ہر میدان میں آگے ہیں، کوئی قانون کے میدان میں کوئی سیاست اور صحافت کے میدان میں۔‘
انہوں نے سوال کیا کہ جو لوگ ان پر بلا جواز تنقید کرتے ہیں وہ جب سختیاں برداشت کر رہے تھے اس وقت ان کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟
گلگت بلتستان کے نگران وزیر اعلیٰ کے پریس سکریٹری فیض اللہ فراق کا کہنا ہے کہ عبدالحمید خان کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جو بھی ہوگا قانوں کے مطابق ہو گا۔
انڈین انٹیلی جنس را کے اہداف کے حصولی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اتنے پیسے لگانے کے بعد بھی مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی ان کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
’اگر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے عبدالحمید خان ہمارے پاس نہ ہوتے۔ باقی گلگت کے لوگ باشعور ہیں کسی بہکاوے میں نہیں آتے۔ عبدالحمید خان را سے پیسے لینے کے اعتراف کر چکے ہیں اور یہ بھی بتا چکے ہیں کہ را کے چیف نے گلگت بلتستان میں بدامنی پھیلانے کا کہا تھا جو انہوں نے مسترد کر دیا۔‘