سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ہاسٹلز میں پینے کا صاف پانی نہ ملنے اور پانی کی قلت کے خلاف احتجاج کرنے والے 17 طلبہ پر پولیس کی جانب سے غداری کا مقدمہ درج ہونے پر یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح محمد بُرفت نے اعلان کیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ ایف آئی آر میں سے غداری کی دفعات ختم کرانے کے لیے حکام سے بات کررہی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر بُرفت نے کہا کہ ’پولیس نے ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا ہے کہ احتجاج کرنے والے طلبہ احتجاج کے دوران ملک دشمن نعرے لگارہے تھے، مگر یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کی گئی ابتدائی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ طلبہ نے ایسے نعرے نہیں لگائے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ پولیس نے ایسی دفعات کیوں لگائیں؟ میں خود ڈپٹی انسپکٹر جنرل اور دیگر پولیس افسران سے بات کرہا ہوں اور ایف آئی آر سے غداری کی دفعات کو خارج کروایا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ سندھ یونیورسٹی جامشورو کے ہاسٹلز میں رہنے والے ڈیڑھ درجن طلبہ نے 31 اکتوبر 2019 کی شام کو چاردیواری میں بنے ہاسٹلز کے مین گیٹ پر پانی کی کمی اور صاف پانی کے فراہمی نہ ہونے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دھرنا دیا جو بقول طلبہ کے تین سے چار گھنٹے جاری رہا۔ بعد میں پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مسائل کے حل کی یقین دہانی کرانے پر ختم کیا گیا۔ جس کے اٹھارہ دن بعد پیر کے رات کو جامشورو تھانے کی پولیس نے سٹیٹ کیس کے طور پر 17 طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔
ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 120- اے اور 120-بی (مجرمانہ سازش کرنا)، دفعہ 123-اے (ریاست کے قیام کی مذمت کرنا اور ریاست کی خودمختاری کو نقصان پہچانا)، دفعہ 124 (صدر پاکستان یا گورنر پر حملہ کرنا)، دفعہ 153 (جان بوجھ کر فسادات پر اُکسانا) کی دفعات شامل کی گئیں۔
ایف آئی آر میں سندھ یونیورسٹی کے طلبہ بشمول ایاز حسین کھوسو، فراز احمد چانڈیو، انصار برڑو، راشد زرداری، نادر لاکھیر، امید علی شاہ، لکھمیر زرداری، سیف اللہ، سلامت زؤنر، یوسف جتوئی، دانش ناگراج، زیب جتوئی، ھالار اور چار نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا۔
پولیس یونٹ یونیورسٹیز جامشورو کے انچارج غلام قادر پہنور نے ایف آئی میں موقف اختیار کیا کہ اس شام ان کو ہاسٹل پرووسٹ شہاب احمد سومرو نے فون پر اطلاع دی کہ ہاسٹلز کے گیٹ پر قوم پرست جماعت جیے سندھ سے منسلک 17 یا 18 طلبہ پاکستان مخالف نعرے بازی اور وال چاکنگ کر رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے رابطہ کرنے پر سندھ یونیورسٹی ہاسٹل پرووسٹ شہاب احمد سومرو نے بتایا کہ انھوں نے پولیس کو اس دن ایسی کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے نہیں پتہ پولیس نے کیوں ایف آئی آر میں ایسا لکھا؟ میں نے کہا تھا کہ کچھ طلبہ احتجاج کرہے ہیں۔ طلبہ ہمارے بچوں جیسے ہیں میں کیسے ان پر الزام لگا سکتا ہوں؟ یہ ایف آئی آر پولیس نے اپنی مرضی سے کاٹی ہے۔‘
ایس ایچ او جامشورو پولیس سٹیشن نثار شاہ نے کہا کہ ’یہ طلبہ پہلے بھی پاکستان مخالف وال چاکنگ کرتے رہے ہیں اور اس دن انھوں نے میرے سامنے پاکستان مخالف نعرے لگائے اس لیے یہ مقدمہ درج کیا گیا ہے۔‘
طلبہ رہنما جے کمار کے مطابق ہاسٹلز میں بہت عرصے سے پانی کی کمی ہے اور پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں مختصر عرصے کے دوران کئی طلبہ کو یرقان بھی ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ’اس دن ہاسٹل میں پانی نہیں تھا تو طلبہ شکایت لے کر پرووسٹ آفس گئے تو انھیں کہا گیا کہ پانی کی موٹر خراب ہے مرمت کے بعد پانی دیا جائے گا۔ چند گھنٹوں تک پانی نہیں آیا تو طلبہ دوبارہ گئے تو بھی وہی جواب ملا، جب شام تک پانی نہیں آیا تو طبلہ نے احتجاج کیا جس پر ایسا مقدمہ درج کیا گیا۔‘
مقدمے میں نامزد اکنامکس شعبے کے تھرڈ ایئر کے طالب علم فراز احمد چانڈیو نے کہا کہ کسی بھی طالب علم نے کوئی بھی ایسا نعرہ نہیں لگایا اور وہ حیران ہیں کہ احتجاج کے اتنے دنوں بعد مقدمہ درج کیا گیا۔ ’ہمارے پاس احتجاج کی ویڈیوز موجود ہیں جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ طلبہ پرامن احتجاج کرہے ہیں اور ایسا کوئی بھی نعرہ نہیں لگا رہے بلکہ ایس ایچ او طلبہ کو دھمکا رہے تھے۔‘
مقدمے کے بعد سندھ یونیورسٹی کے طلبہ میں خوف چھایا ہوا ہے اور کیس کے بعد یونیورسٹی کی کلاسز میں حاضری بھی کم رہی۔
طلبہ پر غداری کے مقدمے کے بعد وکیل رہنما ایڈووکیٹ واجد خاصخیلی نے اعلان کیا کہ وہ ان طلبہ کا مقدمہ مفت لڑیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی اور پولیس نے ابھی تک ایف آئی آر عدالت میں پیش نہیں کی، مگر میرا اندازہ ہے کہ عدالت میں آنے کے بعد یہ ایف آئی آر خارج ہوجائی گی۔‘