اولمپئن، دولت مشترکہ کھیلوں کے چیمپئن اور باکسر فرینکو ونیاما کی باکسنگ کہانی کا انجام پریوں کی کہانی جیسا خوبصورت نہیں تھا۔
ونیاما سیئول میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں یوگنڈا کے لیے لڑے پھر بیلجئم کے پیشہ ور باکسر بنے اور 1990 کی دہائی میں اپنے دور کے بہترین باکسروں سے لڑتے ہوئے زندگی کا سفر طے کیا۔
ان کی سڑکوں پر مکاروں، مفاد پرستوں اور جھوٹوں سے ملاقات ہوئیں اور وہ کسی بھی غیرمحفوظ باکسر کی طرح معمول کی خرابیوں کا شکار ہو گئے۔
انہوں نے چیمپئنز کو ہرایا، ان سے شکست بھی کھائی۔ شادی شدہ اور تین بچوں کے باپ ونیاما نرم خواور شائستہ مزاج تھے۔
مارچ کے آخر میں ونیاما51 سال کی عمر میں رگبی میں فوت ہو گئے۔ ایک دوپہر انہیں بے گھر افراد کی رہائشی عمارت کے ایک چھوٹے سے کمرے میں دل کا دورہ پڑا۔موت کے وقت وہ یوگنڈا میں واقع اپنے گھر سے بہت دور لیکن واروک شائرکے کاروباری قصبے میں اپنے پرانے خاندانی گھر سے چند میل کے فاصلے پر تھے۔
اولمپک مقابلوں میں کامیابی کے لیے پرامید ہونے سے لے کر تنہائی میں موت تک ونیاما کا سفر وعدوں،امیدوں، توقعات، تنہائی اور باکسنگ کی دنیا میں ناگزیر ناکامی کی بل کھاتی داستان ہے۔
ونیاما نے اولمپک مقابلوں کے ایک سال بعد بیلجئیم میں پیشہ ور باکسرکے طور پر زندگی کا آغاز کیا۔
اپنے پہلے دس مقابلوں میں سے سات جیتے اور پیشہ ورانہ زندگی کے پہلے چار سالوں کے دوران کارل تھامپسن اور جانی نیلسن جیسے برطانوی باکسروں کو شکست دی۔ دونوں باکسر مختلف عالمی اعزازت کے مالک تھے۔
ونیاما نے 1994 میں وئرجیم میں ٹونی بوتھ کو ہرا کر کروز ویٹ کا اعزاز جیتا۔پھر 1995 میں لندن ایسٹ اینڈ کے یارک شائرہال میں، میں نے دیکھا کہ وہ دولت مشترکہ کا اعزاز ہار گئے۔
اُسی سال ڈیٹرائٹ میں ان کا مقابلہ ٹومی ہرنزکے ساتھ ہونا تھا لیکن یہ مقابلہ آخری وقت میں ملتوی کردیاگیا اور ونیاما نے معاوضے سے محرومی سے بچنے کے لیے جمی تھنڈر سے لڑنا قبول کر لیا۔ جمی تھنڈر اُس وقت ایک قابل احترام اور اعلٰی پائے کے ہیوی ویٹ باکسر تھے۔ ونیاما نے تیس پاؤنڈ وزن کم کیا اور پوائنٹس کی بنیاد پر مقابلہ جیت لیا۔
ان کے لیے یہ مقابلہ لڑنا ضروری تھا کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں انہیں بغیر پیسوں کے بیلجیئم کے شہر گھینٹ واپس جانے کا خطرہ بھی مول لینا پڑتا۔
باکسروں کے بیرون ملک مقابلوں میں حصے لینے کے بعد تھوڑی سی رقم یا خالی ہاتھ گھر لوٹنے کے بہت بے رحم اورنہ ختم ہونے والے قصے ہیں۔
2000میں جب ونیاما نے باکسنگ کے پیشے کا پہلا مرحلہ ختم کیا تو وہ29 مقابلوں میں سے 20 جیت چکے تھے۔ انہوں نے سنجیدہ اور بے رحم باکسنگ کا دوسرا پیشہ اختیار کیا جس میں مقابلے کا معاوضہ ملتا ہے۔
انہوں نے فلوریڈا اور لاس ویگاس میں اور وقفہ کر کے جرمنی اور آسٹریا جانے والے کلٹس کو برادرز کے ساتھ بھی کام کیا۔
ونیاماکی بیوی لوسی کہتی ہیں کہ ان کے خاوند نے کبھی شکایت نہیں کی، وہ مجھ سے باتیں کیا کرتے تھے لیکن وہ اتنے خاموش طبع اور شریف تھے کہ زیادہ نہیں بول سکتے تھے۔
لوسی ونیاما کے تین بچوں کے ساتھ رگبی میں ایک ایسے گھرمیں رہتی تھیں جو خاندان کی شادی بیاہ، اچھے دنوں اور گریجویشن مکمل کرنے کے موقع پرمسکراتی ہوئی بیٹیوں کی تصاویر سے بھرا ہوا تھا۔ افریقی گاؤں اور ایک عرصہ پہلے موت سے ہمکنار ہونے والے خاندان کی دھندلی سی تصاویر بھی ہیں۔
’ونیاما کے ملنے کے دس روز بعد میں صوفے پربیٹھی ہوں۔ ایک باکسر کی گم شدہ زندگی کوایک جگہ اکٹھا کرنے کی کوشش میں۔‘
لوسی کا کہناتھا کہ گھینٹ میں وہ بڑے پیارے تین منزلہ گھرکے مالک تھے لیکن 2007 میں خاندان نے سامان باندھا اور بیلجیئم سے مڈ لینڈز چلاگیا۔ ایسا کیوں ہوا؟
’ہم برطانیہ اس لیے آئے کہ وہاں باکسروں کوتربیت دینے کی اچھی ملازمت ملنے کی امید تھی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی امیدیں تھیں۔‘
پہلے ونیاما خاندان کو ایک اچھا گھرملا۔ ایسا گھرجہاں جاکوزی باتھ روم کا اہتمام تو تھا لیکن اس میں گرم پانی نہیں تھا۔ مسلسل جاری رہنے والی ملازمت تھی اور نہ ہی حقیقی امید۔ تب خاندان مشکلات کا شکار ہوگیا۔
ونیاما اور ان کا خاندان جلد گندے ماحول میں گم ہو گئے۔ ایک سے دوسرے گھراورگندے کمروں میں منتقل ہوتے رہے۔ میلے بستر اور غیرمعیاری ناشتے پرگزر بسرکرنی پڑی جبکہ سفرکے دوران ان کا سامان چوری ہو گیا۔
پے درپے مشکلات کے باجود خاندان نے سر اونچا رکھا۔ جب ونیاما کو کام ملتا وہ کام کرتے رہتے۔ انہوں نے سکولوں میں باکسنگ سکھائی،جمنازیم بنایا اور برطانیہ کے باکسنگ کنٹرول بورڈ سے اجازت نامہ حاصل کیا تاکہ باکسروں کوتربیت دے سکیں۔ تاہم ہر موقع پربات نہ بن سکی اور گھر میں ان کے دماغ میں شروع ہونے والی شیطانی لڑائی نے ان پرحملہ کرنا شروع کردیا۔
وہ کہیں نہیں جاسکتے تھے۔ ایک ایسا تباہ حال شخص جنھیں ان کے سائے اور اکھاڑے میں ہونے والی بہت سی لڑائیوں کی یادوں کے ساتھ چھوڑ دیا گیا تھا۔
اس وقت ان 36 باکسروں کے لیے نجی گھرجلد مکمل کرنے کے منصوبے بنائے گئے ہیں جوونیاما کی طرح باکسنگ چھوڑنے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے دوچار ہیں۔
منزل ابھی بہت دورہے لیکن جان اولیور انتھونی جوشوا کوتربیت دینے والے پہلے ٹرینر رنگ سائیڈ ریسٹ اینڈ کیئر ہوم کے نام سے مجوزہ منصوبے کے ایک ٹرسٹی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ونیاما کو پناہ ملنی چاہیے تھی۔
جان اولیورنے مجھے بتایا کہ وہ بعض ایسے بہترین باکسروں کودیکھتے ہیں جن کے پاس کچھ نہیں۔ میں ان سے ملنے ایسے مقامات پرجاتا ہوں جہاں رہنا ان کے لیے مناسب نہیں۔
ان نظرنہ آنے والے باکسروں کے لیے کچھ کیا جانا چاہیے۔ میں نے الیور کی وہ ذاتی فہرست دیکھی جس میں شامل باکسروں کوفوری مدد کی ضرورت ہے۔ یہ بڑی تکلیف دہ صورت حال ہے۔
چھ سات برس پہلے ونیاما کوفوری دیکھ بھال اور مدد کی ضرورت تھی۔ لوسی کہتی ہیں کہ وہ سوتے ہوئے لڑتےاور چیختےتھے۔ وہ کہتے تھےکہ ان کے سرمیں گھنٹی سے بجتی محسوس ہوتی ہے۔ مجھے علم تھا کہ وہ تکلیف میں اور مایوس تھے۔
لوسی نے مجھے بتایا کہ وہ ایسے شخص کو کھو رہی تھیں جنہیں وہ ملی،جن کے ساتھ محبت ہوئی اور جن کے ساتھ انہوں نے شادی کی۔ اُس وقت وہ ویسے نہیں تھےجن کے ساتھ وہ پہلی بار ملی تھیں۔
یہ ایک بحران تھا۔ لوسی اور ونیاماکوعلم تھا کہ انھیں ایک مکمل تشخیص کی ضرورت ہے اس سے قبل کہ زندگی معمول پر آنے کے امکانات نہ رہیں۔
لوسی کے مطابق وہ ونیاما کوکسی طبی ماہر کودکھانے ہسپتال لے گئیں۔ سرکے ایم آرآئی کے لیے وہ تین بار ہسپتال گئے۔ وہ تین مرتبہ تیار ہوئے، کپڑے پہنے اورایم آرآئی مشین کے کمرے سےباہرنکل گئے۔ میں اور کیا کرسکتی تھی؟
لوسی نے فرش پرپڑی چٹائی کی طرف دیکھا۔’میرے پاس ان کے جانے کی کوئی وجہ نہیں۔ بس وہ چلے گئے۔ انہیں مشین کا خوف تھا یا وہ حقیقت سے خوفزدہ تھے۔‘
چھ برس قبل لوسی اورونیاما الگ ہوگئے۔ لوسی کے مطابق ’ان کے ساتھ رہنا انتہائی مشکل ہوگیاتھا‘۔
دونوں نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں اور بچوں کے لیے الگ ہوجانا بہترہوگا۔ ونیاما اندرسے ٹوٹ گئے تھے۔ دونوں کواس بات کا علم تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ حقیقت میں اس کا کیا مطلب ہے یا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔
ایک سابق باکسرکے مکوں یا دماغ کو پہنچنے والا نقصان ایک چھپا ہوا خطرہ ہوتا ہے۔
علیحدگی کے بعد کا وقت بے چارے ونیاما کے لیے تاریک دورتھا کیونکہ اپنے آپ کوزندہ رہنے کے لیے تیارکررہے تھے۔ وہ باکسنگ کے بھوتوں پر قابو پانے کی کوشش اورغیرمعمولی حالات میں معمول کی زندگی گزارنے کی کوشش کررہے تھے۔
دوسرے سابق اورگم شدہ باکسرشہرکے مراکزمیں گھومتے اور خیالی حریفوں سے لڑتے رہتے ہیں۔ لوگ انھیں شراب کے نشے میں دھت دیوانہ سمجھتے ہیں جومکے چلاتےہیں اوردوسروں کوبرا بھلا کہنے کے ساتھ خوفزدہ بھی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ونیاما ایک شریف آدمی تھے جوذاتی تکلیف سے مسکراتے ہوئے گزررہے تھے ۔
ونیاما کے آخری دنوں کے بارے میں سوچنا تکلیف دہ ہے۔
ان کا باکسنگ میں مستقبل ختم ہوچکا تھا، ان کا خاندان الگ ہوگیا تھا، نئے کاروبارکے منصوبے ختم ہوچکےتھے جبکہ صحت تیزی سے گر رہی تھی۔ان کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔
لوسی کے مطابق علیحدگی کے بعد ونیاما نے انہیں ایک طرف کردیا تھا۔ لوسی نے اپنے خاوند کوایک برس سے نہیں دیکھا تھا لیکن انہیں علم تھا کہ وہ کیسے ہیں اور مرنے تک کس جگہ تھے۔
ونیاما کو آخری بار صبح ساڑھے دس بجے زندہ دیکھا گیا۔ ان کی دیکھ بھال کرنے والے کارکن نے ساڑھے چار بجے کمرے میں انہیں مردہ پایا۔
پہلے پہل ان کا خاندان سمجھ نہیں پایا تھا کہ وہ کس طرح مر گئے؟ کسی کو ان کے دل کے مسئلے کا پتہ نہیں تھا۔
2016 ، رگبی میں ونیاماکے ساتھ مل کرجم کھولنے والے اور ان کے خاندانی دوست جان فنچ کے مطابق ونیاما جم کے ہمیشہ سب سے زیادہ فٹ شخص تھے۔ ونیاما کو مدد کی ضرورت تھی اور انہیں بھی اس بات کا علم تھا۔ آپ یہ ان کی آنکھوں میں دیکھ سکتے تھے لیکن وہ مدد کے لیے کبھی نہیں کہیں گے۔
جم نہیں چل سکا۔ لوگوں نے پھر وعدہ شکنی کی۔ ویناما اپنی رہائش گاہ واپس جانے کے لیے پھر آزاد تھے جہاں ایک کارکن نے ان کی دیکھ بھال کرنی تھی۔ فنچ کہتے ہیں کہ جم ونیاما کے لیے ایک بار پھر زندہ رہنے کے لیے ایک راہ فرار تھا۔ انہوں نے کبھی شکایت نہیں کی تھی، بس برداشت کیا تھا۔ ان کا ایمان مضبوط تھا۔ وہ ایک غیرمعمولی انسان تھے۔
لوگ ایک مسکراتے، کسی کی مدد کرتے یا بھاگتے ہوئے ویناما کو یاد کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ دوڑا کرتے اور فٹ رہتے تھے۔ان کا منجھلا بیٹا نیلی کہتا ہے کہ اسے یاد ہے کہ وہ ونیاما کے ساتھ دوڑنے جاتا تھا اور وہ مجھ سے آگے رہتے تھے۔ ان کی صحت بہت اچھی تھی۔
لوسی اپنے خاوند کو یوگنڈا واپس لے جا کر والدین کے قریب پہاڑی پر دفن کرنا چاہتی تھیں۔ ونیاما یہی چاہتے تھے اور سفرمیں رہنے والے باکسر کے لیے یہ آخری سفر ہو گا۔
ونیاما کی میت یوگنڈا لے جانے کے لیے رقم اکٹھی کرنے کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے لوسی نے سماجی میڈیا پر گوفنڈ می کے نام سے پیج بنایا تھا۔
افریقی گاؤں، بیلجیئم میں باکسنگ اور ایسا خاندان جوان سے محبت کرتا تھا ان سے دور،ایک اور باکسر اپنے سر میں موجود بھوتوں سے آخری لڑائی لڑ رہا تھا۔
میں نے بہت سے مغرور لوگوں کواس لڑائی میں شکست کھاتے دیکھا ہے اور شاید یہ اس وقت کے بارے میں ہے جب انھیں اس سے کچھ زیادہ مدد ملی جس کی اس وقت پیشکش کی جارہی ہے۔