حقیقت تو یہی ہے کہ بظاہر متحدہ، باطن شکستہ اپوزیشن کے پاس حکومت گرانے کےلیے اب محض نومبر تک کا وقت ہی بچا ہے۔
اس کے بعد سینیٹ الیکشن کی بھاگ دوڑ شروع ہو جائے گی اور مارچ میں سینیٹ کی باگ جو تحریک انصاف کے ہاتھ آ گئی تو پھر شہہ سوار کے پاؤں رکاب میں ٹِکنے والے نہیں۔
پھر تبدیلی کا گھوڑا ایسے سَرپَٹ دوڑے گا کہ مِیلوں پیچھے تک دھول چٹائے گا۔ یہ الگ بات کہ گھڑ سوار کا حال نہ جانے کیا ہو۔
بہرحال اپوزیشن کو جو کرنا ہوگا، نومبر تک کرنا ہوگا۔ سینیٹ انتخابات جہاں ایوانِ بالا میں بھی تحریک انصاف کا بول بالا دکھائیں گے وہیں اپوزیشن جماعتوں کو صرف عددی اعتبار سے ہی نہیں سیاسی بیانیے اور عمل کے میدان میں بھی نسبتاً کمزور کر جائیں گے۔ 2021 بھی جیسے تیسے گزر جائے گا۔ آخر کا ڈیڑھ سال تو ویسے بھی ایم این ایز، ایم پی ایز اور الیکشن لڑنے کے شوقین و خواہاں حلقوں میں گزارتے ہیں لہٰذا بھول جائیے کہ حکومت کیخلاف تحریک چلانے کے لیے کوئی دستیاب بھی ہوگا۔
کل ہونے والی اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس بھی ہو ہی جائے گی۔ اعلان کر دیا تو اب انعقاد کرنا تو مجبوری ہے ہی لیکن خاطر جمع رکھیے اپوزیشن جماعتوں سے کسی انقلاب کی توقع بعید ہے۔
سڑکوں پر تحریک چلانے کے نہ حالات ہیں نہ وسائل۔ اسمبلیوں سے استعفوں پر بھی بات نہیں بنے گی۔ فی الحال پیپلز پارٹی تو کم از کم پَری میچور سندھ حکومت سے دستبردار نہیں ہوگی۔ تحریکِ عدم اعتماد کا وہی حال ہو سکتا ہے جو فیٹف قانون سازی میں اپوزیشن کا ہوا یا جیسے چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی میں ہزیمت اٹھائی تھی۔
اپوزیشن جماعتوں کا اہم ترین اجلاسوں میں اپنے ہی بندوں کی عدم حاضری پر کوئی کنٹرول نہیں تو تحریکِ عدم اعتماد تو دور کی بات ہوئی۔
ایلوپیتھک ٹائپ کی اپوزیشن اے پی سی منعقد ہو سکتی ہے جس کا ہومیوپیتھک ٹائپ کا اعلامیہ جاری کیا جا سکتا ہے۔ لکھنے میں تو نسخہ ہائے کیمیا لیکن عمل کریں تو فائدہ ندارد۔
تقریریں تو خوب گھن گرج کے ساتھ ہوں گی لیکن برسنے کو بارش کا پہلا قطرہ کون بنے گا یہ راضی نامہ تعطل کا شکار ہی رہے گا۔ حکومت کو البتہ خوب طعنے کوسنے دے کر توپوں میں کیڑے
پڑنے کی بد دعا کے ساتھ دُکھی دِلوں کے اطمینان کا سامان باہم کیا جائے گا۔
مخالف بھلے کچی عمر کے جتنے طعنے بلاول بھٹو کو دیں لیکن سیاست کی کچی گولیاں وہ بھی نہیں کھیلے۔ بھٹو اور بی بی کے جاں نشین کو خوب معلوم ہے کہ فی الحال عمران خان کی حکومت کو گرایا جانا سیاسی طور پر کسی طرح پیپلز پارٹی کیلیے سود مند نہیں۔ شہباز شریف میں صدارتی خوبیاں تو بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں (کہ روایتی طور پر سیریموونیل پوسٹ Ceremonial Post کے تقاضے بھی نبھاتے جائیں؛ ہونے کا احساس بھی دلائیں اور نہ ہونے کے آثار بھی دکھلاتے جائیں) لیکن قائدانہ نہیں۔
حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں اپوزیشن، خاص کر ن لیگ اگر واقعی سنجیدہ ہے تو نواز شریف کو ہر حال میں پاکستان آنا ہوگا۔ یا تو وہی اس تحریک کو سڑکوں پر یا پارلیمان یا زندان سے لیڈ کر سکتے ہیں یا پھر مریم نواز۔ لیکن فی الحال تو یہ دونوں شخصیات بھی واضح ٹکراؤ سے گریزاں نظرآتی ہیں۔ نواز شریف نہ تو ازخود پاکستان واپس تشریف لائیں گے نہ ہی حکومت یا عدالت انہیں کھینچ کر پاکستان لا سکے گی۔
اے پی سی میں البتہ بذریعہ ویڈیو لنک نواز شریف شرکت کرتے ہیں تو جہاں اپوزیشن کی بیٹھک کو ایک وقتی مضبوطی ملے گی وہیں ن لیگی لیڈران اور کارکنان کے لیے بھی (عارضی ہی سہی) حوصلہ افزائی ہوگی۔ ساتھ ہی ملکی سیاست میں بھی چند دن کی ہلچل قائم ہو جائے گی اور سنسناتے ٹی وی چینلز اور پروگرامز کے لیے چند روز کا نیا مصالحہ تیار رہے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے بڑھ کر اگر کسی کو توقع ہے تو احمقوں کی جنت میں کئی پلاٹ خالی پڑے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان البتہ گزشتہ دو سالوں میں جتنی بار مایوسی کا شکار ہوئے ہیں وہیں ایک باری اور سہی۔
دیگر چھوٹی اپوزیشن جماعتیں تو سورج مکھی کی مانند ن لیگ پیپلز پارٹی کی طرف ہی گھومتی رہتی ہیں۔ پاکستان بار کونسل کی آل پارٹیز کانفرنس نے البتہ ایک ماحول بنا دیا ہے اُسی ماحول کو آگے بڑھاتے گرجتا برستا اعلامیہ تو جاری ہو سکتا ہے لیکن اعلامیے کا آخری نکتہ اور نقطہ بہر حال 'فل سٹاپ' ہی ہوگا۔
نواز شریف کی بذریعہ ویڈیو لنک آل پارٹیز کانفرنس میں سیاسی شرکت البتہ عدالت کے لیے برہمی کا سامان مہیا کر سکتی ہے جس نے 22 ستمبر کےلیے نا قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔
نواز شریف کا وطن واپسی سے مسلسل انکار اور طِبّی عُذر لیکن گاہے بگاہے لندن سے چہل قدمی سیر و تفریح اور لندن کے مشہور کافی کیفیز سے نکلتی تصویریں اور اُس پر ویڈیو لنک سے اے پی سی میں شرکت ایک سوچی سمجھی سیاسی شاطرانہ سٹریٹیجی ہو سکتی ہے کہ 'بلا سکو تو بلا لو۔'
اے پی سی میں نواز شریف کی شرکت حکمران جماعت کو بھی مزید سیاسی گولہ بارود مہیا کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان مزید پیچ و تاب کھائیں گے، حکومت وزرا مزید بھڑکیں گے بھڑکائیں گے لیکن اس سے آگے کچھ نہ کر پائیں گے۔
حکومت نواز شریف کو کسی طور پاکستان نہ لا سکے گی، یہی حقیقت ہے۔ لیکن اپوزیشن بھی یہی حقیقت تسلیم کر لے کہ چاہے کچھ بھی کر لے عمران خان کو حکومت سے نہ گرا پائے گی نہ ہلا پائے گی۔