پچھلے ایک سال میں پانچ کل جماعتی کانفرنسیں (اے پی سی) ہو چکی ہیں۔ پچھلے سال اکتوبر میں مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ بھی کیا مگر ان تمام میں یہ بات واضح نہ ہو سکی کہ اس میں عوام کا کیا مفاد ہے۔
اب تک حزب اختلاف صرف طاقت کی سیاست کر رہی ہے۔ بظاہر عوام کی اکثریت نے پچھلی تمام اے پی سیز کو مسترد کیا اور ستمبر 20 کی اے پی سی کے دوران جو تقریریں ہوئیں اور بعد میں جو بیانات جاری ہوئے اس سے یہ ایک دفعہ پھر واضح ہے کہ یہ اقتدار کی جنگ ہے اور ان کی سیاست میں عوامی مسائل کا حل شامل نہیں ہے۔
مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میاں نواز شریف صحت مندی کی طرف گامزن ہیں اور اب سیاست میں بھرپور حصہ لیں گے، لیکن قوم کے ذہن میں بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات کے وہ منتظر ہیں۔ خاص طور پر عوام کی تکالیف پر ان کی خاموشی ان کی سیاست پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
اے پی سی میں جو پارٹیاں موجود تھیں یہ وہی پارٹیاں ہیں جنہوں نے 1973 کا آئین، چارٹر آف ڈیموکریسی اور اٹھارویں ترمیم اس قوم کو دی۔ ان چیزوں پر اعتبار کرکے عوام نے انہیں کئی دفعہ حکومتیں دیں، مگر ان تمام قربانیوں کے بعد کیا عوام کی محکومی ختم کوئی، کیا نوجوانوں کے لیے کاروبار اور روزگار کے مواقع پیدا ہوئے، کیا مزدور اور کسان کی زندگیوں میں آسودگی آئی، کیا معاشی ترقی ہمیں حاصل ہوئی، کیا جمہوریت مضبوط ہوئی، کیا ریاستی ادارے تعمیر ہوئے جو عوام کی خدمت کر سکیں، کیا ملکی خودمختاری ہمیں حاصل ہوئی؟
ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہیں۔ اگر یہ پارٹیاں ماضی میں اس قوم کی امنگوں پر پوری نہیں اتریں تو مستقبل میں بھی ان سے کوئی امید نہیں ہے۔ اب ان پارٹیوں کے لیے ایک فیصلہ کن وقت ہے اور عوام ان کے اوپر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 20 ستمبر کو قومی سیاسی مذاکرات کی طرف جانے کی ایک اور منزل طے ہوئی۔ یہ بات آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تقریباً ایک سال پہلے جب ہم نے یہ تجویز پیش کی کہ قومی سیاسی مذاکرات کا آغاز کیا جائے تاکہ ایک نئی عوامی جمہوریہ قائم ہو تو بہت سے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ عمل چند دنوں اور ہفتوں کا ہے۔ یہ غلط تصور ہے کسی قومی تعمیر کے لیے ہونے والے مذاکرات کا عمل انتہائی سست رفتاری سے ہوتا ہے اور بعض دفعہ اس کے ایک ایک مرحلے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر نجی سیکٹر میں تبدیلی کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا ہے، اس لیے مجھے اعتماد ہے کہ ہم صحیح اقدامات کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں، دانشوروں، ریاستی اداروں اور عوام سے مسلسل ہمارا مکالمہ جاری ہے اور مجھے آپ کو یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ 20 ستمبر کو ایک اہم مرحلہ طے ہوا۔
کسی بھی قومی سیاسی مذاکرات کی کامیابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس بات کا تعین ہو کہ یہ مذاکرات کن سیاسی دھڑوں میں ہوں گے اور ہر دھڑے کی سیاسی پوزیشن کیا ہے۔ 20 ستمبر کو یہ فیصلہ ہو گیا کہ قومی سیاسی مذاکرات تین دھڑوں کے درمیان ہوں گے۔
ایک سیاسی دھڑا فوج اور اس سے وابستہ سیاسی پارٹیوں کا ہے۔ اس دھڑے میں شامل پارٹیاں پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، جے ڈی اے، پی ایس پی، باپ اور مسلم لیگ ق ہیں۔ اس دھڑے کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ ہمیں امید ہے فوج ان پارٹیوں کو قومی سیاسی مذاکرات کے لیے تیار کرے گی۔
دوسرا دھڑا سٹیٹس کو کی مذہبی اور اور لسانی پارٹیاں ہیں۔ مسلم لیگ ن پنجاب کارڈ، پیپلز پارٹی سندھ کارڈ، پی ٹی ایم، اے این پی اور پختونخوا میپ پختون کارڈ، بی این پی مینگل بلوچ کارڈ کے نظریے پر ہیں جبکہ جے یو آئی ایف اور جے یو پی مذہبی نظریے کی پارٹی ہے۔ یہ پارٹیاں کئی کئی دفعہ اقتدار کے مزے لے چکی ہیں مگر یہ عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتریں مگر عوام کا ایک حصہ اب تک ان سے امید لگائے ہوئے ہے۔ اس دھڑے کی رہنمائی میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھ میں ہے۔ اے پی سی نے اس دھڑے کا نام پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ رکھا ہے۔
تیسرا دھڑا عوام کا ہے خاص طور پر پڑھا لکھا متوسط طبقہ جو پاکستان کے شہروں، ضلعوں اور تحصیلوں میں رہتا ہے۔ جماعت اسلامی سے نظریاتی معاملات پر مکالمہ جاری ہے، ہم انہیں انتہائی دائیں بازو سے وسط کی طرف لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ کو ان کے اور میرے سیاسی بیانات میں کافی مماثلت نظر آئے گی۔ جماعت اسلامی کی قیادت پر کوئی بھی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں ہمارے درمیان نظریاتی دوری کو کم کرنا ضروری ہے۔
اساتذہ، وکلا، تاجر، کسان اور مزدور تنظیموں سے بھی مشاورت ہو گی، اس لیے کہ وہ بھی اسی دھڑے کا حصہ ہیں۔
اب یہ تین سیاسی دھڑوں کی ذمہ داری ہے کہ قومی سیاسی مذاکرات کی میز پر جانے کا ایجنڈا تیار کریں۔ ہمیں خوشی ہے کہ لسانی/مذہبی دھڑے کی اہم پارٹیوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنی تقریروں میں اس کا عندیہ دیا ہے کہ ایک نیا میثاق بننا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہمیں افغانستان سے سبق سیکھنا چاہیے۔ 20 سال تک ایک دوسرے سے جنگ کرنے کے بعد وہ ایک میز پر بیٹھ کر ایک جمہوریہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔