افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار میں خواتین حقوق کے لیے سرگرم کارکن مریم درانی خواتین کے لیے نیا فٹنس سنٹر بنانے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ انہوں نے یہ جم بنانے کے لیے کئی دہائیوں تک آواز بلند کی۔
36 سالہ مریم درانی طالبان کے گڑھ قندھار میں خواتین کے حقوق کی پرجوش علمبردار ہیں۔ صوبے میں طالبان کے جنگجو گروپ کا بہت زیادہ اثرورسوخ ہے اور خواتین کے معاملے میں رجعت پسندانہ سوچ کا مالک ہے۔
علاقے کی زیادہ تر خواتین عوامی مقامات پر زیادہ تر برقع پہنتی ہیں۔
مریم درانی خواتین کے لیے ریڈیوسٹیشن چلاتی رہی ہیں اور وہ صوبائی کونسل کی رکن بھی رہ چکی ہیں جبکہ سابق امریکی صدر باراک اوباما کی اہلیہ نے 2012 میں انہیں حوصلہ مند خواتین کے عالمی ایوارڈ سے نوازا تھا۔
گذشتہ برس مریم درانی نے اپنا راستہ تبدیل کر کے خواتین کے لیے مخصوص جم شروع کیا جہاں ہر روز تقریباً 50 خواتین آتی ہیں۔
مریم درانی نے خواتین کے گروپ کے ساتھ ورزش کے تھوڑی دیر بعد بتایا: ’خواتین کا ردعمل بہت مثبت تھا کیونکہ انہیں اس کی ضرورت تھی۔ جس بات نے مجھے پریشان کیا وہ مردوں کا ردعمل تھا جنہوں نے ہمارے کلب کے منفی رویہ اختیار کیا۔ حتیٰ کہ میری توہین کی کیونکہ ان کے خیال میں ہمارا کلب شریعت کے خلاف ہے۔‘
امریکی فوج کی واپسی کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد افغانستان میں بہت سی خواتین پریشان ہیں کہ جنگجو گروپ رسمی سیاسی طریقوں سے اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتا ہے۔
جب 1996 سے 2001 تک افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی تو انہوں نے خواتین کی تعلیم پر پابندی لگا دی تھی اور انہیں مرد رشتہ دار کے بغیر گھر سے نکلنے سے روک دیا تھا۔ جنگجو گروپس کے مطاب اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے مگر بہت سی افغان خواتین کو اس بات پر اب بھی شک ہے۔
مریم درانی نے کہا کہ ’مجھے صرف ان کے خواتین کے حقوق کے بارے میں خیالات پر پریشانی ہے اور وہ مجھے کیا آزادی دیتے ہیں اور کیا پابندیاں لگائیں گے۔‘
اس وقت مریم درانی کی توجہ ان درجنوں خواتین کی خدمت پر ہے جو کلب میں آتی ہیں۔ وہ ان خواتین کو معاشرے کے مختلف طبقات کی نمائندہ قرار دیتی ہیں جن میں گھریلو اور ایسی خواتین شامل ہیں جو گھر سے باہر کام کرتی ہیں۔
مریم کا کہنا تھا کہ ان کی صرف ایک خواہش ہے کہ انہیں اس معاشرے میں انسان سمجھا جائے۔