سالوں سے سائنس دانوں اور ستاورں کو مطالعہ کرنے والے عام شہریوں کو محسور کرنے والے پراسرار بلیک ہولز اب زیادہ دیر تک اپنے راز نہیں چھپا سکتے۔
ماہر فلکیات نے بلیک ہول کی لی گئی سب سے پہلی تصویر جاری کر دی ہے جس میں خلا میں چمکتا حیرت انگیر سرخ اور سنہری دائرہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ حیرت انگیز تصویر کائنات کے بارے میں سائنس دانوں کی معلومات کو مزید بڑھانے میں مدد کرتی ہے۔ اس کے پیچھے 200 سائنس دان اور دینا بھر میں قائم آٹھ دوربینوں کا نیٹ ورک ہے۔
بدھ کو برسلز میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس تحقیق میں شامل ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس دان شیپرڈ دولمن نے کہا: ’ہم نے وہ دیکھ لیا ہے جس کے بارے میں ہمیں لگتا تھا کہ اسے دیکھنا ناممکن ہے۔ ہم نے ایک بلیک ہول دیکھ لیا ہے اور اس کی تصویر بھی لی ہے۔‘
یہ تصویر ایم 87 نامی کہکشاں میں واقع بلیک ہول کی ہے جو ہمارے سورج کے حجم سے چھ ارب گنا بڑا ہے اور زمین سے پانچ کروڑ 30 لاکھ نوری سال دور ہے۔ ایک نوری سال 95 کھرب کلومیٹر کی دوری کا ہوتا ہے۔
اس بلیک ہول کا ڈیٹا دنیا بھر میں نصب آٹھ دوربینوں کے نیٹ ورک ’ایونٹ ہورائزن ٹیلی سکوپ‘ سے جمع کیا گیا جس میں دو سال لگے۔ تصویر کو مکمل کرنے میں 200 سائنس دان، سوپر کمپیوٹر اورسینکڑوں ٹیرابائٹ ڈیٹا کا استعمال کیا گیا۔
اس پراجکیٹ میں کمپیوٹر سائنس دان کیٹی بومن کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے تین سال پہلے وہ الگوردم تخلیق کیا جس کی مدد سے آٹھ دوربینوں سے جمع کیے گئے سینکڑوں ٹیرابائٹ ڈیٹا کو پراسس کرکے اس سے بیلک ہول کی واضح تصویر بنائی جا سکے۔ تب وہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر سائنس اور مصنوعی ذہانت کی گریجویٹ طالبہ تھیں۔
3 years ago MIT grad student Katie Bouman led the creation of a new algorithm to produce the first-ever image of a black hole.
— MIT CSAIL (@MIT_CSAIL) April 10, 2019
Today, that image was released.
More info: https://t.co/WITAL1omGl
2016 story: https://t.co/QV7Zf2snEP#EHTblackhole #EventHorizonTelescope pic.twitter.com/u6FBswmGDZ
بدھ کو جو تصویر سامنے آئی ہے وہ کیٹی اور دوسرے سائنس دانوں کے بنائے گئے پراوگراموں کی مدد سے بہت سے تصاویر کو جوڑ کر بنائی گئی ہے۔
سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیٹی نے کہا: ’ہم میں سے کوئی بھی اس (پراجیکٹ) کو اکیلے نہیں سرانجام دے سکتا تھا۔ یہ بہت سارے لوگوں کا ساتھ کام کرنے کے نتیجے میں ممکن ہوا۔‘
سائنس دانوں کے عام اعلان کے بعد فیس بک اور انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں کیٹی نے اس دن کی اپنی تصویر بھی لگائی جس دن انہوں نے ڈیٹا پراسس ہونے کے بعد پہلی دفعہ بلیک ہول کی تصویر اپنے کمپیوٹر پر دیکھی۔
اس سال کیٹی کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اسیسٹنٹ پروفیسر کا عہدہ سنبھالیں گی۔
’طویل عرصے سے تلاش تھی‘
یہ تصویر چار دنوں کے دوران لی گئی ہے جب ماہر فلکیات کو ’دنیا بھر میں بےعیب موسم‘ کی تلاش تھی۔ بلیک ہول کی پیمائش ایسی ویولینتھ پر لی گئی ہے جسے انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی اس لیے اس تصویر میں رنگ ڈالا گیا ہے۔
اس میں بلیک ہول کے پاس گیس دیکھی ج اسکتی ہے جو بڑھتی کشش ثقل سے کروڑوں ڈگری تک گرم ہوتی جا رہی ہے۔
اس منصوبے پر پانچ کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے زائد کی رقم خرچ ہوئی ہے جس میں آدھی امریکہ کی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن نے فراہم کی۔
بلیک ہولز کائنات کے سب سے بڑے اور طاقتور مظاہر میں شمار ہوتے ہیں۔ مگر آج تک ہم انہیں دیکھ نہیں سکے تھے کیونکہ وہ روشنی کو اپنے اندر کھینچ لیتے ہیں۔
امریکی ریاست ہوائی کی ایسٹ ایشین آبزرویٹری سے تعلق رکھنے والی جیسیکا ڈیمپسی بھی اس تحقیق میں شامل تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے دو سال پہلے لی گئی اس تصویر کو پہلی بار دیکھا تو انہیں ’لارڈ آف دا رنگز‘ فلموں کی آگ بگولہ ’آئی آف سارون‘ کی یاد آئی۔
انہوں نے بتایا کہ چھوٹے بلیک ہولز دم توڑتے ستاروں کے اپنے اندر ہی گر جانے سے بنتے ہیں ۔اس کے برعکس سوپرمیسو (supermassive) بلیک ہولز کا ابتدا کیسے ہوتا ہے یہ کچھ پراسرار ہی ہے۔ ایسے بلیک ہول ہماری اور دوسری کہکشاوں کے اکثر درمیاں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ اتنے کثیف ہوتے ہیں کہ کچھ بھی ان کی کشش ثقل سے بچ نہیں سکتا، حتیٰ کہ روشنی بھی نہیں۔
تین سال پہلے سائنس دان دو چھوٹے بلیک ہولز کے ضم ہونے سے بنی کشش ثقل کی لہر کی آواز سننے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ایسٹروفیزیکل جرنل لیٹرز میں چھپی یہ تصویراس آواز میں روشنی کو شامل کرتی ہے۔
وہ سائنس دان جو اس تحقیق سے وابستہ نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی نوبیل انعام کی حقدار ہو سکتی ہے جیسے کہ کشش ثقل کی لہروں کی دریافت تھی۔
جیسیکا ڈیمپسی نے کہا کہ ویسے تو جو کچھ بھی بلیک ہول کی گرفت میں آ کر اس کے اندر گر جاتا ہے وہ پھر کبھی نہیں نظر آتا، مگر اس تصویر نے اس ’خوش قسمت گیس اور دھول‘ کو عکس بند کر لیا جو بس اتنا ہی دور تھیں کہ بلیک ہول سے بچی رہیں اور کروڑوں سال بعد زمین پر دیکھی جا سکیں۔
جیسیکا ڈیمپسی کے مطابق ٹیم نے ہماری کہکشاں کے مرکز میں واقع اور ایم 87 کہکشاں میں واقع سوپر میسو بلیک ہولزکا مطالعہ کیا۔ ہماری کہکشاں کا بلیک ہول قریب ہے پر چھوٹا ہے تو دونوں آسمان میں ایک ہی سائز کے لگتے ہیں۔ مگر ایم 87 کے بلیک ہول کی کی تصویر لینا آسان تھا کیونکہ وہ کم رفتار سے گھومتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہم ایک طویل عرصے سے اس کی تلاش میں تھے اور بہتر ٹیکنالوجی کی مدد سے قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔‘