افغان امن مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے افغان امن مذاکرات کی کامیابی کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی کبھی اجازت نہیں دے گا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز میں مباحثے سے خطاب کے موقع پر کیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی بھی اس موقع پر موجود تھے۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ دوحہ میں افغان حکومتی اہلکار اور طالبان کے نمائندے امن مذاکرات کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں اور دنیا کو اس موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ان کے کندھوں پر اہم ذمہ داریاں ہیں اور وہ پاکستان سے دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کا فروغ چاہتے ہیں۔ 'امن مذاکرات کامیاب ہوں گے تو میں اور ملا عبدالغنی برادر ہیرو بنیں گے۔'
ملا برادر افغانستان میں طالبان تحریک کے بانیوں میں سے ہیں۔ جب 2001 میں افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو وہ اس وقت روپوش ہوگئے تھے۔ پھر 2010 میں پاکستانی حکام نے انہیں کراچی سے گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 2013 میں جب طالبان سے مذاکرات کی بحث شروع ہوئی تو طالبان کی طرف سے مذاکرات کے آغاز کے لیے ملا برادر کی رہائی کی شرط رکھی گئی تھی۔ افغان حکومت کی جانب سے بھی ملا برادر کی رہائی کی باتیں کی گئیں اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے ملا برادر کی رہائی کا عندیہ بھی دیا تھا مگر رہائی نہ ہو سکی، بالآخر اکتوبر 2018 میں پاکستان نے ملا برادر کو قید سے رہا کیا۔
حال ہی میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں واقع طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، جس کی سربراہی ملا عبدالغنی برادر نے کی تھی۔
خطاب کے دوران ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے مزید کہا کہ افغان عوام مذاکرات میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں اور خطے میں اب جنگ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
'افغان عوام دنیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حامی ہیں اور دشمنیوں سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ ہم سب کو مذاکرات کے ان قیمتی لمحات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔'
ڈاکٹر عبداللہ نے مزید کہا کہ افغانستان کے عوام اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کے حق میں نہیں ہیں۔ 'ہم کبھی ایسی کسی حرکت کی اجازت نہیں دیں گے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ افغان عوام اپنے ملک میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کی حمایت کو اہمیت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسی لیے دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان عوامی رابطوں کے فروغ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
'افغان عوام کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ایسے ہی جذبات اس طرف بھی موجود ہیں۔'
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بتایا کہ وہ خود پشاور میں دو سال بحیثیت افغان پناہ گرین زندگی بسر کر چکے ہیں۔ 'ہم افغان پاکستانیوں کی میزبانی کے لیے بہت شکر گزار ہیں۔'
انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان میڈیا ایکسچینج کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ خطے کی طرح افغانستان میں بھی قیام امن کے لیے چین کا اہم کردار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'چین افغانستان میں امن کی واپسی کے لیے اہم اور مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ان کے قیام کے دوران اہم حکومتی اہلکاروں سے ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے ایک دوسرے کی تشویش پر بات ہوئی۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات کی کامیابی کے نتیجے میں معاشی فوائد خطے اور افغانستان دونوں کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ 'جنگ کبھی ہمیشہ لڑ کر ختم نہیں ہوسکتی، تمام فریقین کو پرامن حل کو ہی تسلیم کرنا ہوگا۔'
انہوں نے کہا کہ افغانستان نے دہشت گردی کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا۔ اس سلسلے میں انہوں نے القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس (داعش) کے نام لیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغان قوم تشدد کے بغیر مستقبل چاہتی ہے۔ 'ہم کسی ہمسائے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔'
ڈاکٹر عبداللہ نے زور دیا کہ پاکستان اور افغانستان کو کشیدگی کم کرکے ٹرانزٹ ٹریڈ اور عوامی تعلقات پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد اور کابل کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ دونوں قوموں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے باعث نقصانات اٹھائے ہیں۔
بعدازاں ڈاکٹر عبداللہ نے وزیر اعظم عمران خان اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقاتیں کیں۔