محمود عباس کی جماعت ’فتح‘ اور ان کی سیاسی حریف جماعت اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے درمیان 24 ستمبر کو استنبول کے مقام پر عجلت میں طے پانے والا معاہدہ اور فلسطینی رہنما کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس میں کی جانے والی تقریر اس امر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ فلسطینی قیادت ’اوسلو معاہدے‘ کی جکڑ بندیوں اور ’امن عمل‘ کی بند گلی میں رہ کر ہی معاملات کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔
محمود عباس نے اپنے سیاسی کیریئر کا زیادہ وقت ایک ایسے پیچیدہ توازن کو برقرار رکھنے میں صرف کیا ہے جس میں ایک جانب وہ مغرب کی نظر میں فلسطینیوں کے محبوب رہنما بنے رہیں جبکہ دوسری طرف سیاسی پشتی بانی کے ایک نظام کے تحت عام فلسطینیوں کے درمیان اپنے اقتدار کو سند جواز فراہم کر سکیں۔ ایسا اقتدار جسے انجوائے کرنے کے لیے امریکی قیادت میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے انہیں رقم فراہم کرتے رہیں۔
یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
اس طریقہ کار کا نتیجہ محمود عباس اور ان کی زیر قیادت چلنے والی فلسطینی اتھارٹی میں شامل ان کے حواریوں کے حق میں تو اچھا ہی نکلنا تھا۔ وہی لوگ عباس اتھارٹی سے روابط کی بنا پر راتوں رات دولت میں کھیلنے لگے جبکہ فلسطینیوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔
پچیس سال پہلے فلسطینی اتھارٹی کے قیام کے بعد بالخصوص مسئلہ فلسطین تاریخ کے تاریک ترین دور سے گزرا۔ اس دوران اسرائیل نے جی بھر کر فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، یہودی بستیوں کی تیز ترین تعمیر کی اور فلسطین کی سیاسی اشرافیہ نے بلا روک کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیے جبکہ فلسطینیوں کے درمیان ہر سو انتشار پھیلا۔
فلسطینی اتھارٹی کی تیار کردہ سکیم شاید زیادہ دیر چلتی مگر بھلا ہو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جنہوں نے اپنے پیش روؤں کی مشرق وسطیٰ پالیسیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے لایعنی امن عمل سے اپنا تعلق توڑنے کا اعلان کیا۔
عمومی طور پر مشرق وسطیٰ اور بالخصوص فلسطین سے امریکہ کی کنارہ کشی کا فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ نے نہیں کیا۔ تاہم ٹرمپ نے امریکی خارجہ پالیسی کے نئے ڈاکٹرائن کو عملی شکل دینے کے لیے مہمیز ضرور لگائی۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دو مرتبہ اقتدار کے دوران فلسطین، امریکی کاغذات میں انتہائی واجبی حیثیت میں برقرار رہا۔ ایک مرتبہ باراک اوباما کے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں اور دوسری مرتبہ جب ’سست رو‘ مشہور امریکی انتظامیہ نے دسمبر 2016 میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیش کردہ قرارداد 2334 کو ویٹو کرنے سے اجتناب کیا۔ اس قرار داد میں اسرائیل کی غیرقانونی یہودی بستیوں پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔
کئی برس تک ’امن عمل‘ واجبی طور پر برقرار رہا۔ حقیقت میں اوسلو معاہدے نے اسرائیلی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان مالیاتی اور ٹیکینکل سکیورٹی میکانزم کا روپ دھارے رکھا۔ فروری 2019 میں جب واشنگٹن نے فلسطینی قیادت کو دیا جانے والا مالی تعاون بند کیا تو اس وقت محمود عباس اور ان کی فلسطینی اتھارٹی کو یہ بات سمجھ آئی کہ اب واشنگٹن اور تل ابیب نے نام نہاد ’اعتدال پسند‘ فلسطینی اتحادیوں کو اثاثہ سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔
امریکی پالیسی میں اچانک تبدیلی سے حیران ہو کر محمود عباس نے متبادل تلاش کرنا شروع کر دیے۔ ابو مازن نے فلسطینی عوام سے اپنی قیادت کی کرپشن، ذاتی ناکامیوں، پارٹی بازی اور فلسطینیوں کو عوامی مزاحمت اور عالمی حمایت سے جلا پانے والی آزادی کی نئی حکمت عملی کے گرد جمع کرنے پر ناکامی کے لیے معافی مانگنے کی بجائے اپنی پرانی روش بلاروک برقرار رکھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کی گذشتہ جمعہ جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس میں کیے جانے والے خطاب میں محمود عباس نے کئی دوسری افسانوی کہانیوں کے ساتھ ایک مرتبہ پھر امن عمل کا حوالہ دیتے ہوئے ’بین الاقوامی امن کانفرنس‘ منعقد کرنے کا مطالبہ کیا۔ محمود عباس کے تمام حوالے ناقابل عمل بیانیہ اور قصہ پارنیہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے، کیونکہ امریکہ ایک نئے مرحلے میں داخلے کے لیے پر تول رہا ہے۔ ایسا مرحلہ جس کی بنیاد بین الاقوامی قانون کے عدم احترام اور اسرائیل کے استعماری قبضے کو ’ڈی فیکٹو‘ انداز میں قبول کرنے پر رکھی گئی ہے۔
مغربی دنیا کے احساسات کو متاثر کرنے کے علاوہ فلسطینی اتھارٹی کی نام نہاد متوازن پالیسی کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے بے یار ومدد گار اور قیادت سے محروم عام فلسطینیوں کے سامنے نیا جنم لیا جائے۔
اقوام متحدہ کے سامنے اپنی تقریر میں محمود عباس نے خود کو دو مختلف الخیال سامعین کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے کہا ’کہ قومی اتحاد کے پرچم کے سائے تلے زندگی اور امید پیدا کرتے رہیں گے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ہر حال میں امن، انصاف، انسانیت اور قومی اتحاد کے وفادار رہیں گے۔‘
حقیقت میں محمود عباس کو قومی اتحاد اور نہ ہی جمہوریت سے کوئی سروکار ہے۔ اس وقت وہ ایک غیرمنتخب صدر ہیں۔ ان کی مدت صدارت کا مینڈیٹ 2009 میں ختم ہو چکا تھا۔ پندرہ سالہ دور اقتدار میں انہوں نے عوام میں اتحاد پیدا کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
’اتحاد‘ کہانی کی تازہ قسط 24 ستمبر کو استنبول میں دیکھنے کو ملی۔ فاتحانہ تقریروں کے بعد یہ موقع بھی خود نمائی کی ایک تازہ کوشش ہی ثابت ہوا۔
استنبول کانفرنس کا عجلت میں کیا جانے والا اعلان جس کے بموجب حریف فتح اور حماس بالآخر جمہوری انتخاب کے انعقاد پر راضی ہو گئے، یہ مکارانہ اعلان دراصل ایک لاحاصل اقدام ثابت ہو گا۔ اس معاہدے سے محمود عباس کو ایک بار پھر خود کو اعتدال پسند سیاسی رہنما کے طور پر پیش کرنے کا موقع ملے گا۔ اسرائیلی تسلط میں جمہوری اور آزاد انتخاب دیوانے کا خواب ہے۔
فلسطین میں آزاد یا کسی بھی قسم کے انتخابات کا انعقاد مشکوک امر ہے۔ استنبول معاہدے کے بعد مذاکرات میں ’فتح‘ کی نمائندگی کرنے والے عزام الاحمد نے اعلان کیا ’کہ یروشلم کے بغیر کوئی انتخاب نہیں ہو سکتا۔‘ بالفاظ دیگر ’کوئی انتخاب ممکن نہیں۔‘
فلسطین کے 1996 میں انتخاب کے موقع پر اسرائیل نے اہالیان یروشلم کو انتخابی عمل میں شرکت سے محروم رکھا۔ تاریخی مقدس شہر کے نواحی علاقوں میں مقیم مٹھی بھر افراد کو ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے دیا گیا۔ امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے بعد صہیونی ریاست، فلسطینیوں کو بھاری تعداد میں یروشلم کے اندر ووٹ ڈالنے دے، یہ بات ناممکنات میں سے ہے۔
اوسلو معاہدے کے تحت تشکیل پانے والے زون ’اے، بی اور سی‘ کم و بیش اسرائیل کے مکمل کنڑول میں ہیں۔ کیا وہاں ووٹ ڈالے جا سکیں گے؟ مغربی کنارے کے بیچوں بیچ اٹھائی جانے والی نسلی امتیاز کی مظہر طویل اور عریض دیوار کے اس پار رہنے والے فلسطینیوں کا حق رائے کون دلوائے گا؟ فائرنگ زونز اور وادی اردن کی کٹی پٹی چھوٹی بستیوں میں رہنے والے فلسطینی باسی کیسے آزادانہ طور پر حق رائے دہی ادا کر پائیں گے؟
جمہوری انتخاب میں آئیڈیل طریقے سے وہاں ووٹ ڈالے جا سکتے ہیں جہاں کوئی قوم حقیقی معنوں میں آزاد ہو۔ اسے اپنے علاقے پر قانونی، سیاسی اور جغرافیائی حد بندی کا استحقاق حاصل ہو۔ فلسطینی اتھارٹی کے پاس ان میں کوئی بھی اختیار موجود نہیں۔
مزید برآں اگر باصرار انتخاب کرانا ممکن ہو تو اس کا نتیجہ فلسطینی اتھارٹی کے ’اوور آل‘ کی صورت میں ہی نکلے گا۔ اس سے اوسلو معاہدہ اور اس سے ملحقہ ’امن عمل‘ کا سراب جوں کا توں برقرار رہے گا۔ زمینی طور پر کچھ تبدیل نہیں ہو سکے گا۔
اوسلو معاہدے میں فلسطینی مکمل طور پر ناکام رہے۔ اس کا فائدہ صرف اسرائیل نے اٹھایا کیونکہ اس سے قومی آزادی کا منصوبہ انتہائی شرمناک انداز میں زمین بوس ہوا۔ فلسطینی قیادت کا جذبہ اگر صادق ہے تو وہ ’سٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھنے کی بجائے اس کے خاتمے کی راہ اپنائیں۔
معاہدہ اوسلو کے فریم ورک میں کامیاب انتخابی عمل بھی فلسطینیوں کی توجہ آزادی کے منصوبے سے ہٹا کر ان کی توانائیوں کو ایک مردہ سیاسی انجام کی طرف لے جائے گا، ایسا انجام جو صرف فلسطینی سیاسی اشرافیہ کے مفادات کا ضامن ہو جبکہ فلسطینیوں کو ’امن کا لولی پاپ‘ دلا کر میٹھی نیند سلا دے۔