فلسطینی قیادت اور عرب دنیا کی اہم شخصیات نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل-فلسطین مسئلہ حل کرنے کے لیے مجوزہ معاشی امن منصوبہ سامنے آنے کے فوراً بعد ہی مسترد کر دیا ہے۔
ٹرمپ امید کر رہے تھے کہ ان کا منصوبہ دہائیوں پر محیط تنازعے کو ختم کر دے گا، لیکن فلسطینی قیادت نے ان کی 96 صفحات پر مشتمل دستاویز کو ’بے معنی‘ اور ناقابل عمل قرار دے دیا۔
صدر ٹرمپ کے داماد اور سینیئر مشیر جیرڈ کشنر نے ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران 50 ارب ڈالرز مالیت کے منصوبے کی تفصیلات آشکار کی ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ اسے منگل کو بحرین میں شروع ہونے والی ایک دو روزہ کانفرنس میں باضابطہ طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
کشنر نے روئٹرز کو بتایا کہ اس منصوبے پر عمل کی صورت میں مغربی کنارے اور غزہ میں دس لاکھ ملازمتیں پیدا ہو سکتی ہیں، جس سے فلسطینیوں میں غربت کم ہو گئی اور ان کی مجموعی قومی پیداوار دگنی ہو جائے گی۔
مجوزہ منصوبہ ایک نئے سرمایہ کاری فنڈ کے گرد گھومتا ہے جس میں سے 27 ارب ڈالرز فلسطینی علاقوں میں خرچ کرنے کے لیے مختص ہوں گے جبکہ باقی 23 ارب ڈالرز مصر، لبنان اور اردن کے درمیان تقسیم ہوں گے۔
179 انفرا سٹرکچر اور کاروباری منصوبوں میں سے پانچ ارب ڈالرز مالیت کا ایک منصوبہ فلسطینیوں کی مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان آمد و رفت کے لیے کوریڈور کی تعمیر کے لیے مختص ہوگا جبکہ فلسطین کے سیاحتی شعبے کے لیے بھی ایک ارب ڈالرز خرچ ہوں گے۔
منصوبے کی دستاویزات میں فلسطین کو ’ریاست‘ کے بجائے ’ایک سوسائٹی‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔
ناقدین اس منصوبے کو فلسطینیوں کی قومی امنگوں کو معاشی سرمایہ کاری کے بدلے بیچ دینے سے تعبیر کرتے ہوئے تنقید کر رہے ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے منصوبے کی تفصیلات سامنے آنے کے فوراً بعد ہی مسترد کرتے ہوئے کہا: ’سیاسی صورتحال نمٹنے سے پہلے معاشی صورتحال کو زیر بحث نہیں لایا جانا چاہیے۔‘
’جب تک سیاسی حل نہیں ملتا، ہم کسی معاشی حل کی طرف نہیں جائیں گے۔‘
فتح تنظیم کے ایک سینئر رکن جبریل رجب نے محمود عباس کے جذبات کی تائید کرتے ہوئے اسرائیلی پبلک براڈ کاسٹر کان کو بتایا: ’معاشی ٹریک کوئی حل نہیں، اور امریکی فنڈز قبضہ جاری رہنے تک بے معنی رہیں گے۔‘
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی ایگزیکٹیو کمیٹی کی رکن ہنان ایشوری نے بھی منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
’پہلے غزہ کی ناکہ بندی ختم کی جائے، اسرائیل کو ہماری زمین، وسائل اور فنڈز ہتھیانے سے روکا جائے، ہمیں نقل و حرکت کی آزادی اور ہماری سرحدوں، فضاؤں اور پانیوں کا کنٹرول دیا جائے پھر دیکھیں کہ ہم کس طرح آزاد اور خود مختار لوگوں کی طرح بھرپور اور خوشحال معیشت پروان چڑھاتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غزہ کنٹرول کرنے والے گروپ حماس نے دو ٹوک الفاظ میں یوں ردعمل دیا ’فلسطین برائے فروخت نہیں‘۔
یہ منصوبہ جو پچھلے دو سالوں سے مرتب دیا جا رہا تھا منگل کو بحرین میں ایک کانفرنس کے دوران پیش کیا جانا ہے، لیکن فلسطینی اتھارٹی نے کانفرنس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، جبکہ میزبان امریکہ نے اسرائیل کو مدعو نہیں کیا۔
حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہانیا نے بحرین کے بادشاہ حماد پر زور دیا ہے کہ وہ کانفرنس منسوخ کر دیں۔
واشنگٹن اب بھی پر امید ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے فلسطین از سر نو تعمیر ہو گا اور اسرائیل سے سیاسی محاذ آرائی ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
توقع کی جا رہی ہے کہ بحرین میں شیڈول کانفرنس میں امیر خلیجی ملکوں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندے شرکت کریں گے لیکن منصوبے کے لیے 50 ارب ڈالرز کیسے اکھٹے ہوں گے یہ سوال فی الحال حل طلب ہے۔
ماہرین یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ غزہ کی اسرائیلی اور مصری ناکہ بندی اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کے باوجود یہ پیسے کس طرح فلسطینیوں کی معاشی حالت بہتر کریں گے۔
اردن سے لے کر کویت تک، نمایاں مبصرین اور عام شہری منصوبے کو ’وقت کا عظیم ضیاع‘ اور ’وقت سے پہلے ہی فوت‘ ہونے سے تعبیر کر رہے ہیں۔
مصری تجزیہ نگار جمال فہمی کہتے ہیں: آبائی زمینیں فروخت نہیں کی جاتیں، خواہ پوری دنیا کے پیسے ہی کیوں نہ دیے جائیں۔’ یہ منصوبہ سیاست دانوں کا نہیں بلکہ رئیل سٹیٹ بروکروں کے ذہنوں کی اختراع ہے۔ حتی کہ معتدل سمجھی جانے والی عرب ریاستیں بھی اس کی کھلے عام حمایت کرنے سے عاری ہیں۔‘
اردن کے سابق سینیئر سیاست دان جواد العنانی نے منصوبے کو غیر متوازن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پورے خطے کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔
بعض اسرائیلی مبصرین نے بھی اس منصوبے پر عمل درآمد ہونے پر سوال کھڑے کیے ہیں۔
بائیں بازو کے اہم اخبار ہاریٹز سے وابستہ اسرائیلی صحافی انشل فیفر کے مطابق ’کشنر کا منصوبہ خالی خولی باتیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی 5G کے بدلے اپنی قومی امنگیں بیچ دیں گے‘۔
تاہم اس امریکی منصوبے کو اسرائیلی حکام کی حمایت حاصل ہے اور انہوں نے اس کے فوراً رد کیے جانے پر افسوس بھی ظاہر کیا ہے۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے قریبی سمجھے جانے والے کابینہ کے رکن زاچی ہنیبی نے کان ریڈیو کو بتایا ’وہ (فلسطینی) اب بھی سمجھتے ہیں کہ معاشی امن کا معاملہ ایک سازش ہے، جس کا مقصد انہیں اچھی چیزوں کے لیے فنڈز دینا ہے تاکہ وہ اپنی قومی امنگیں بھول جائیں‘۔
خلیجی مبصرین نے، جن کے ملک بحرین کانفرنس میں حصہ لیں گے، کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے یک دم منصوبے کو مسترد کر کے غلط کیا۔