مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے تمام دستاویزات اور بیانات کے جائزے کے بعد اخبارات میں نواز شریف کی طلبی کے اشتہار جاری کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ اشتہار شائع ہونے کے 30 دن کے دوران اگر نواز شریف پیش نہیں ہوتے تو وہ اشتہاری قرار پائیں گے۔
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی خصوصی بینچ نے مذکورہ درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں سکائپ ویڈیو لنک کے ذریعے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے افسران کے بیان ریکارڈ کرنے کی کارروائی شروع کی گئی اور فرسٹ سیکرٹری قونصلر افیئرز دلدار ابڑو سے ڈپٹی اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے حلف لیا۔
دلدار ابڑو نے عدالت کو بتایا کہ 17 ستمبر کو انہوں نے نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری وصول کرکے ان کے گھر کے ایڈریس پر راؤ عبدالمنان کے ذریعے بھجوائے لیکن وہاں موجود یعقوب خان نامی شخص نے وارنٹس وصول کرنے سے انکار کر دیا۔جج کے استفسار پر عدالت کو بتایا گیا کہ یعقوب خان نواز شریف کے ذاتی ملازم ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وارنٹس رائل میل کے ذریعے بھی بھجوائے گئے، جن کی وصولی کی تصدیق بھی عدالت کو دکھائی گئی۔ عدالت نے اپنے ریکارڈ کے لیے ٹریکنگ نمبر بھی پوچھا تاکہ چیک کیا جا سکے۔
قونصلر اتاشی راؤ عبدالمنان نے بھی اپنا بیان عدالت کو قلمبند کرواتے ہوئے بتایا کہ ’جب وہ 17 ستمبر کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کے ایڈریس پر پہنچے تو عمارت کے استقبالیہ پر فون کرکے یعقوب خان کو بلوایا گیا۔ جب وہ آئے تو ان کو میں نے اپنا تعارف کروایا کہ میں پاکستان ہائی کمیشن سے آیا ہوں اور کچھ دستاویزات دینی ہیں تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کس قسم کی دستاویزات ہیں؟‘
عبدالمنان کے مطابق انہوں نے یعقوب خان کو بتایا کہ یہ عدالتی دستاویزات ہیں تو یعقوب خان نے کہا کہ انہیں کسی بھی قسم کی دستاویزات وصول کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
قونصلر اتاشی کے مطابق 28 ستمبر کو اس ایڈریس پر دوبارہ جانے پر استقبالیہ پر موجود ریسپشنسٹ ایڈی نے ڈاک وصول کرنے اور اپارٹمنٹ سے کسی کو بھی بلانے سے انکار کر دیا۔
لندن سے دو بیانات ریکارڈ ہونے کے بعد کمرہ عدالت میں موجود دفتر خارجہ کے افسر ڈائریکٹر یورپ محمد مبشر خان نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا اور عدالت کو بتایا کہ ’نواز شریف کے وارنٹس گرفتاری کی نقول میرے پاس موجود ہیں۔ وارنٹس گرفتاری ڈاک کے ذریعے وصول ہوئے جو کورنگ لیٹر کے ساتھ ڈپلومیٹک بیگ میں بھجوائے گئے، اس کے علاوہ ڈاک وصول کرنے اور بھجوانے کا رجسٹر میں اندراج کیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ ’کورنگ لیٹر کے ساتھ بذریعہ فیکس اور ڈپلومیٹک بیگ کے ذریعے وارنٹس بھجوائے گئے۔‘
دفتر خارجہ کی کچھ دستاویزات مکمل نہیں تھیں، جس کے باعث سماعت میں دو گھنٹے کا وقفہ کیا گیا۔ وقفے کے بعد ڈائریکٹر یورپ مبشر خان مطلوبہ دستاویزات عدالت لے آئے اور جس ڈپلومیٹک بیگ میں وارنٹس بھجوائے گئے تھے اس کا نمبر بھی عدالت کو بتایا گیا۔
ڈائریکٹر یورپ کا بیان قلمبند ہونے کے بعد عدالت نے نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سے استفسار کیا کہ ’اب کیا کرنا چاہیے؟‘
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے عدالت کو بتایا کہ ’اگلا مرحلہ نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا ہے کیونکہ وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے عمل میں شریک تین افراد نے بیانات ریکارڈ کرا دیے ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ نواز شریف نے جان بوجھ کر وارنٹ گرفتاری وصول نہیں کیے۔‘
جہانزیب بھروانہ نے مزید کہا کہ ’دستاویز اور شواہد سےواضح ہے کہ نواز شریف جان بوجھ کر مفرور ہیں لہذا انہیں اشتہاری قرار دیا جائے۔‘
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ’اشتہاری قرار دینے کے لیے کتنے اخبارات میں اشتہار شائع کروانا ضروری ہے؟ اور اگر اشتہار جاری کرنے ہیں تو اس صورت میں اخراجات کون اٹھائے گا؟‘
نیب پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ نے عدالت کو بتایا کہ ’اشتہارات کے اخراجات ریاست ہی اٹھائے گی۔ جنگ اور دی نیوز اخبار لندن سے بھی شائع ہوتا ہے، لہذا ان میں اشتہار شائع کروا دیں۔‘
عدالت عالیہ نے تمام دستاویزات اور بیانات کے جائزے کے بعد اخبارات میں نواز شریف کی طلبی کے اشتہار جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اشتہار شائع ہونے کے 30 دن کے دوران اگر نواز شریف پیش نہیں ہوتے تو وہ اشتہاری قرار پائیں گے۔
سماعت کے بعد نیب کے ایڈیشنل پراسکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایک نوٹس عدالت کے باہر لگایا جائے گا اور ایک اشتہار لاہور جاتی امرا میں نواز شریف کی رہائش گاہ کے باہر چسپاں کیا جائے گا جبکہ لندن والا اشتہار بذریعہ دفتر خارجہ بھجوایا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’لاہور میں ڈھول کے ساتھ منادی بھی ہو گی کہ نواز شریف عدالت میں پیش ہوں۔‘