منگل کو ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے نواز شریف کو باہر بھیجا تھا، لہذا حکومت ہی انہیں واپس لائے۔
گذشتہ سماعت پر عدالت نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے نواز شریف کے ناقابل وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے منگل کو مذکورہ درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر ہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ 'بذریعہ دفتر خارجہ وارنٹس کی تعمیل کرائی گئی ہے۔ دفتر خارجہ نے 17 ستمبر کو وارنٹس لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کو بھجوائے اور پاکستانی ہائی کمیشن نے تین طریقوں سے نواز شریف کو وارنٹس ارسال کیے۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'لندن ہائی کمیشن کے قونصلر اتاشی راؤ عبدالمنان ذاتی حیثیت میں نواز شریف کے ایون فیلڈ والے پتے پر گئے لیکن وہاں موجود یعقوب نامی شخص نے وارنٹس وصول کرنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد 18 ستمبر کو رائل میل کی خصوصی سروس کے ذریعے وارنٹس بھجوائے گئے جنہیں حسن نواز نے وصول کیا۔'
اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ 'صرف حسن نام لکھا ہوا ہے، اس بات کا تعین کیسے ہوا کہ یہ وارنٹ وصول کرنے والا شخص حسن نواز ہی ہے؟'
ایڈیشنل اٹارنی جنرل مزید بتایا کہ 'لندن ہائی کمیشن نے کامن ویلتھ کو بھی وارنٹس بھجوائے ہیں جو لندن کاؤنٹی کورٹ کے ذریعے نواز شریف سے وارنٹس وصول کروائیں گے۔ کاؤنٹی کورٹ وارنٹ گرفتاری کے وصول ہونے کی تصدیق کامن ویلتھ آفس کو بھیجے گی جس کے بعد ہم اسے عدالت میں جمع کروا دیں گے۔'
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ 'اگر عدالت حکم دے تو مجرم کی حوالگی کا عمل شروع کر سکتے ہیں۔' جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ 'مجرم کی حوالگی کا حکم وہ جاری کریں جنہوں نے انہیں باہر بھیجا اور نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالا۔ ہم نے نواز شریف کو باہر نہیں بھیجا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی عدالت نے حکومتی وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ 'نواز شریف سزا یافتہ ہیں، عدالت میں ان کی حاضری آپ نے یقینی بنانی ہے، ہمیں نواز شریف کی حاضری چاہیے، وفاقی حکومت جیسے چاہے یقینی بنائے۔'
اس موقع پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سوالات اٹھائے کہ 'کیا یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں، جنہوں نے نواز شریف کو جانےکی اجازت دی، کیا آپ نے نام ای سی ایل سے نکالتے وقت وزارت قانون سے کوئی رائے لی؟'
جبکہ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ 'حکومت نے اس عدالت میں کوئی درخواست دائر نہیں کی کہ ہم ایک سزا یافتہ شخص کوجانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم نہیں دیا، انہوں نے تو طریقہ کار طے کیا۔ جب وفاقی حکومت نے نواز شریف کا نام نکالا تھا تو عدالت کو آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ اہم کام تو نوازشریف کی اپیل پر فیصلہ کرنا ہے لیکن ہم ان کی حاضری پر رکے ہوئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالا اب وہ خود ذمہ دار ہے۔'
ساتھ ہی عدالت نے سوال کیا کہ 'اگر کوئی شخص جان بوجھ کر عدالتی پیشی سے بھاگ رہا ہے تو پھر کیا کریں؟' جس پر نیب پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ 'نواز شریف کے وارنٹ اور طلبی کا اشتہار اخبار میں بھی دیا جائے۔'
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ 'عدالت اس بات پر مطمئن ہو کہ طریقہ کار مکمل ہو چکا ہے، مگر ملزم پیش نہیں ہو رہا ہو تو پھر اشتہاری قرار دے سکتی ہے۔'
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے جواب دیا کہ 'تمام طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد بھی ملزم کا عدالت کے سامنے پیش نہ ہونے پر الگ سے کیس بنتا ہے۔'
سماعت کے بعد عدالت عالیہ نے نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت کل بروز بدھ (23 ستمبر) تک تک ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ دفتر خارجہ عدالت کو اس حوالے سے آگاہ کرے کہ کاؤنٹی کورٹ کے ذریعے وارنٹس کی تعمیل کب تک ہو گی۔