اسلام آباد ہائی کورٹ نے بدھ کو العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ 'نواز شریف کا بیرون ملک جانا پورے نظام کی تضحیک ہے، مجرم کو علم ہے کہ کیسے وہ سارے نظام کو شکست دے کر چلا گیا اور یہ شرم ناک بات ہے۔'
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے آج مذکورہ درخواستوں پر سماعت کی، جس کے آغاز پر عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل پر کیا پیش رفت ہوئی؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ 'کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی، دونوں مرتبہ وارنٹس نواز شریف کے لندن میں واقع گھر کے پتے پر بھجوائے گئے لیکن انہوں نے وصول کرنے سے انکار کر دیا۔' جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ 'ہم نے ناقابل ضمانت وارنٹس جاری کیے، نظر آ رہا ہے کہ جان بوجھ کر وارنٹس وصول کرنے سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔'
دوسری جانب جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ 'آئندہ وفاقی حکومت کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کیسے کسی کو باہر جانے دینا ہے۔ جتنی کوشش ایک مجرم کو وارنٹ پہنچانے میں لگ رہی ہے، ایسے میں کئی سائلین کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ عدالت، حکومت، دفتر خارجہ اور ہائی کمیشن مل کر ایک وارنٹ کی تعمیل کروا رہے ہیں۔ نواز شریف کے ایک کیس کی وجہ سے کئی کیس التوا کا شکار ہیں۔'
اس موقعے پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے عدالت کو بتایا کہ 'نواز شریف وارنٹس گرفتاری جاری ہونے کے معاملے سے آگاہ ہیں جبکہ نواز شریف کے وکیل نے بھی بتایا تھا کہ انہیں عدالتی آرڈر سے آگاہ کیا گیا ہے۔'
عدالت نے استفسار کیا کہ 'درخواست گزار نواز شریف تو پوری قوم سے خطاب کر رہے ہیں، کیا ہم لکھ سکتے ہیں کہ ملزم نواز شریف کہیں روپوش ہے؟'
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 'اگر عدالت مطمئن ہے کہ اپنی پوری کوشش کر چکی تو اب اشتہار جاری کیا جا سکتا ہے۔' جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'ہم آفیشل دستاویزات کو ریکارڈ پر لائیں گے اور اس کے بعد اشتہار جاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ ابھی جو آفیشل دستاویزات آ رہی ہیں، اسے ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے اور پھر مفرور قرار دیں گے۔ اس معاملے کو مرحلہ وار لے کر چلنا ہے۔'
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ 'طریقہ کار کو فالو کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کل کو ملزم کوئی سہارا نہ لے سکے اور یہ نہ کہہ سکے کہ اسے علم نہیں تھا یا یہ موقف اختیار کرے کہ اسے موقع نہیں دیا گیا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت پر نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کرنے والے ہائی کمیشن کے افسران کی شہادت قلمبند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت سات اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ نواز شریف نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سزاؤں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھیں تھیں لیکن عدالت کا یہ موقف ہے کہ چونکہ نواز شریف کو دی گئی ضمانت کی مدت ختم ہو چکی ہےاس لیے مجرم کا سرینڈر کرنا اور عدالت میں حاضر ہونا ضروری ہے۔ نواز شریف کی عدم حاضری پر عدالت نے 15 ستمبر کو سابق وزیراعظم کے ناقابل وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے تھے جن کی ابھی تک تعمیل نہیں ہوسکی۔
عمومی طور پر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے 30 دن بعد مجرم کو مفرور ظاہر کرکے اس کی عدالت میں حاضری کے لیے اشتہار جاری کیے جاتے ہیں جو ان کے پتے پر چسپاں کیے جاتے ہیں۔