یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
وفاقی حکومت کی اعلی ملازمتوں میں شامل ہونے والے خواہش مند امیدواروں کی پسندیدگی کی فہرست میں وزارت خارجہ کبھی کسی زمانے میں پہلے درجہ پر ہوا کرتی تھی۔ اب یہ کم ہو کر چوتھے اور پانچویں نمبر پر آ گئی ہے۔
بعض صوبوں کے امیدوار تو اب فارن سروس کو ان درجات سے بھی نیچے لے آئے ہیں۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ وزارت خارجہ میں موجود زیادہ تر افسران کی پہلی پسند فارن سروس نہیں تھی۔ ان امیدواروں کی اس پروقار اور معزز سروس میں غیردلچسپی کی سمجھ اس وقت آنے لگتی ہے جب آپ کو وزارت خارجہ کے اندر سے بھی بےچینی کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
وزارت خارجہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس کے چند افسروں نے وزارت کی اپنی طے شدہ انتظامی پالیسیوں سے انحراف پر بطور احتجاج عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ یہ افسران، جن میں ایک سینیئر ترین افسر شامل ہیں، الزام لگا رہے ہیں کہ وزارت میں طے شدہ انتظامی اصولوں کی پامالی ہو رہی ہے۔
ان حوصلہ شکن حالات میں ضروری ہے کہ وزارت خارجہ اپنی انتظامی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور اصلاحات کے ذریعے ایسے حالات پیدا کیے جائیں جن کی وجہ سے پاکستان کے ہونہار نوجوان اس میں شامل ہونے پر فخر محسوس کریں اور اس کی تمنا کریں۔ اس گہری تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ وزارت میں انصاف، اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر انتظامی پالیسیاں بنائی جائیں۔
دفتر خارجہ میں سب سے پہلے ساختی اصلاحات کی ضرورت ہے جس میں بھرتیوں اور تربیت کے طریقہ کار میں اہم تبدیلیاں درکار ہیں۔ ان تبدیلیوں کا محور ایسے لوگوں کی فارن سروس میں شمولیت یقینی بنانا ہے جو اس سروس میں شامل ہونے میں دلچسپی رکھتے ہوں نہ کہ یہ سروس ان کی چوتھی، پانچویں یا آخری پسند ہو۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فارن سروس میں شامل ہونے کے امتحان کو دوسری اعلی وفاقی سروسز سے علیحدہ کر دیا جائے اور اس کے لیے علیحدہ سے امتحانی عمل کو تشکیل دیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ سول سروسز میں اصلاحات کے لیے حکومت کی قائم کردہ ٹاسک فورس نے اس تبدیلی کی تجویز دے دی ہے اور اب کابینہ نے اس کی منظوری دینی ہے۔
یہ بات مجھے ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر عشرت حسین نے بتائی۔ انہوں نے میرے پچھلے کالم جس میں سول سروسز میں اصلاحات اور اس میں ڈی ایم جی کے غلبے کے بارے میں بات ہوئی تھی شدید تحفظات کے اظہار کے لیے رابطہ کیا تھا۔ ان کے تحفظات پر کسی دوسرے وقت تفصیلا بحث ہوگی مگر فارن سروس کے لیے اچھی خبر ہے کہ آنے والی اصلاحات میں اس سروس میں شامل ہونے کے لیے ایک علیحدہ سے امتحان ہوگا جس میں امیدوار کی بین الاقوامی تعلقات کی سمجھ اور اس کے مختلف اہم پہلوؤں پر اس کی فہم کا امتحان لیا جائے گا۔ یہ ایک قدم فارن سروس میں اہم تبدیلی لا سکتا ہے۔
ہمارے کچھ خارجہ سیکریٹریز نے پوسٹنگ کے نظام میں اچھی تبدیلیاں لائیں مگر ان کے جانے کے بعد ان سے انحراف شروع کر دیاگیا۔
فارن سروس کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ تمام افسران امتحان سے ہی وزارت خارجہ میں شامل ہوں۔ دیگر محکموں سے بغیر امتحان کے اس میں شمولیت کے دروازے بند کر دیے جائیں۔ اس وقت افواج کی حاضر سروس افسران کے لیے ایک کوٹا مخصوص ہے جس میں وہ بغیر امتحان دیئے فارن سروس اور دوسری سروسز میں داخل ہو سکتے ہیں۔
اس غیرمنصفانہ طریقہ کار نے جو آمر ضیا الحق کی میراث ہے ناصرف بےروزگار نوجوان کامیاب امیدواروں کے حق کو سلب کیا ہے بلکہ اس سے فارن سروس میں ایک واضح منفی گروپ بندی کا بھی آغاز ہوا ہے۔ اس نے فارن سروس کی کارکردگی، معیار اور یکجہتی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اگر یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ افواج کے حاضر سروس افسران کے فوجی تجربہ کی فارن سروس کو ضرورت ہے تو خواہش مند افسران کو فارن سروس کے امتحان سے گزارا جائے۔
فارن سروس میں بہترین انسانی وسائل کی شمولیت کے لیے ضروری ہے کے تارکین وطن کے قابل بچوں کی بھی اس میں شمولیت کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔ ان کے امتحان میں شامل ہونے کے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے۔ اس طرح ہم پڑھے لکھے قابل نوجوانوں کو جن کا پہلے سے بین الاقوامی تعارف ہو، پاکستان کی خدمت کا موقع دے سکتے ہیں۔ انہیں GRE/GMAT امتحان کی بنیاد پر سروس میں شامل کرنے پر غور کیا جانا چاہیے۔ ان کی شمولیت یقینی بنانے کے لیے تاریکین وطن کے لیے ایک کوٹہ بھی مخصوص کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ وزارت خارجہ کو تربیت کے شعبے میں بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ فارن سروس اکیڈمی میں یا تو کسی کو زبردستی یا ان کی خواہشات کے خلاف سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ جب خواہاں افسر نہ مل رہا ہو تو وزارت خارجہ کی انتظامیہ کے سربراہ کو اس کا اضافی چارج دے دیا جاتا ہے۔
یقینا یہ صورت حال پسندیدہ نہیں اور ایسے سربراہ کسی طرح بھی افسران کی بہترین تربیت کو یقینی نہیں بنا سکتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اکیڈمی کی سربراہی کے لیے ایسے افسر یا تعلیمی ماہر کا انتخاب کیا جائے جو خود بھی بہترین تعلیمی مہارت کے حامل ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس تربیت کے دوران زیادہ توجہ ان افسران پر مرکوز ہونی چاہیے جو کسی طرح اپنے دوسرے ساتھیوں سے پیچھے ہوں۔ عموما ہماری ساری توجہ صرف بہتر افسروں کو بہترین بنانے پر صرف ہوتی ہے۔
تربیت کے دوران افسروں کی لکھنے اور بولنے کی مہارت میں پیشہ ورانہ طریقے سے اضافہ کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کیوں اب عبدالستار، شہریار خان، شمشاد احمد، نجم الدین شیخ، انعام الحق، ریاض کھوکھر اور ریاض محمد خان جیسی قد آور شخصیات خارجہ سیکریٹری نظر نہیں آتیں۔ یقینا ان افسروں کی ذاتی قابلیت کی علاوہ ان کی بہتر تربیت بھی کی گئی ہو گی۔
ماضی میں فارن سروس میں افسروں کو بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ اب بند ہو چکا ہے۔ اس سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کوتاہی کے لیے عموما وسائل کا بہانہ استعمال کیا جاتا ہے مگر میرے تجربے کے مطابق وسائل کی موجودگی ایک سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے لیے صرف قیادت میں بصیرت کی ضرورت ہے۔
کیونکہ ہمارے سفارت کارں کو بین الاقوامی سطح پر مذاکرات میں بھی شریک ہونا پڑتا ہے تو ہمیں اس میدان میں نئے افسروں کی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نوجوان سفارت کاروں کو باآسانی بین الاقوامی ماحول میں ڈھالنے کے لیے فنشنگ سکولوں میں بھی تربیت دیے جانے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
وزارت خارجہ میں شامل ہونے کے بعد افسروں کو سب سے بڑا مسئلہ غیرمنصفانہ پوسٹنگ کے نظام سے ہوتا ہے۔ اس میں موجودہ حالات میں بہت کم شفافیت اور بہت زیادہ اقرباپروری شامل ہے۔ اسی غیر منصفانہ نظام کی وجہ سے اس وقت کچھ افسروں نے وزارت خارجہ کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس نظام میں بہتری، انصاف، شفافیت، استحکام اور تسلسل لایا جائے۔
ہمارے کچھ خارجہ سیکریٹریز نے پوسٹنگ کے نظام میں اچھی تبدیلیاں لائیں مگر ان کے جانے کے بعد ان سے انحراف شروع کر دیاگیا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسی اصلاحات کی جائیں جنہیں من پسندی کی بنیاد پر تبدیل نہ کر دیا جائے۔ اس وقت 2015 کی پوسٹنگ پالیسی ایک مناسب اور منصفانہ انتظام ہے اور وزارت خارجہ کو بغیر کسی دباؤ میں آئے اس پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔
بیرون ملک تجارت اور پاکستان کا مثبت عکس بڑھانے کے لیے کمرشل اتاشی اور انفارمیشن اتاشی بھی تعینات کیے جاتے ہیں۔ جن گروپس سے یہ افسران منتخب کیے جاتے ہیں ان کا سفارت کاری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی اس طرز کی تربیت ہوتی ہے۔ وہ عموما سارے کیریئر میں ایک دفعہ ہی اس کام کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ انہیں اس واحد پوسٹنگ کے دوران لمبا عرصہ تو سفارت کاری، مقامی میڈیا اور تجارت کی نزاکتیں سمجھنے میں لگ جاتا ہے جبکہ وزارت خارجہ کے افسران اپنی پہلی سے آخری پوسٹنگ تک یہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ شعبے وزارت خارجہ میں ضم کر دیے جائیں۔
تجارت اور اطلاعات کے معاملات دیکھنے کے لیے ایک مزید خارجہ سیکرٹری کی تعیناتی پر بھی غور ہونا چاہیے۔ یہی طریقہ کار بہت سارے ممالک کی وزارت خارجہ میں قائم ہے اور کامیابی سے چلایا جا رہا ہے۔ اس تبدیلی سے سفارت خانوں کے کام کی ثقافت اور کارکردگی میں مثبت تبدیلی آئے گی جس میں اس وقت ان محکموں کے افسران اپنے آپ کو سفیر کی بجائے اپنے محکمے کے آگے جوابدے سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت دفتر خارجہ میں افسران میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی بالادستی کی بجائے کیرئیر بنانے میں زیادہ دلچسپی دیکھنے میں آتی ہے جس کے لیے مخصوص پوسٹنگ اور سٹاف آسامیوں کو نشانے پر رکھا جاتا ہے۔ اس طریقہ واردات نے ادارے کی قدر و قیمت میں کمی کردی ہے۔ کچھ منتخب افسران کے گروپ کی جنہیں عموما مافیا بھی کہا جاتا ہے کوشش ہوتی ہے کہ ان کا سارا کیرئیر واشنگٹن، نیو یارک، جنیوا اور نیو دہلی تک محدود رہے۔
اس مافیا میں شامل افسران ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے ان کچھ سفارت خانوں میں بار بار پوسٹنگ حاصل کر پاتے ہیں۔ اس سے کئی زیادہ اہلیت والے افسران کو ان اہم جگہوں پر کام کرنے سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اس طرز عمل کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے اور تمام افسران کو ان اہم دارالخلافوں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے مواقع ملنے چاہیے۔
اسی طرح اس رجحان کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے کہ خارجہ سیکرٹری صرف انہی جگہوں پر کام کا تجربہ رکھنے والوں کو بنایا جائے۔
دفتر خارجہ میں علاقائی ماہرین کی کھیپ بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے اور ان ماہرین کے لیے بھی برابری کی بنیاد پر چوٹی کی پوزیشن کے لیے برابر کے مواقع ہونے چاہیں۔ اگر کوئی اہل افسر افریقہ کے امور کا ماہر ہے تو وہ کیوں خارجہ سیکرٹری بننے کا اہل نہیں۔ واشنگٹن، نیو یارک، نیو دیلی اور بیجنگ ہی خارجہ سیکرٹری بننے کا راستہ نہیں ہونے چاہیے
وزارت خارجہ میں کثیرالاقومی تعلقات پر غیرضروری طور پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے جب کہ باہمی تعلقات کی اہمیت سوائے دو تین ملکوں کے نظر انداز کر دی جاتی۔ کثیرالاقومی سفارت کاری کے ماہرین کی وزارت خارجہ میں ایک لمبے عرصے سے بالادستی رہی ہے حالانکہ اس میدان میں پاکستان کو کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اب باہمی تعلقات پر زیادہ توجہ دی جائے اور ہمارے بہترین انسانی وسائل ان تعلقات کی بہتری اور مضبوطی پر لگائے جائیں۔
ایک اہم تبدیلی خارجہ سیکرٹری کی ریٹائرمنٹ یا ان کی سیکریٹری شپ کے دور کے ختم ہونے کے بعد انہیں سفیر بنانے کی روایت پر پابندی ہونی چاہیے۔ اس پابندی کی وجہ سے خارجہ سیکرٹری کی پوری توجہ اگلی اچھی ذمہ داری حاصل کرنے کی کوششوں کی بجائے اپنی موجودہ ذمہ داریاں بغیر کسی دباؤ میں آئے ادا کرنے پر صرف ہوگی۔
امید کی جاتی ہے کہ ان چند اہم اصلاحات سے فارن سروس اپنی پرانی شان و شوکت اور اہم قومی معاملات میں اپنی جگہ بحال کرنے میں کامیاب ہوسکے گی۔