ایک ایسی فلم جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ کسی طرح انکم ٹیکس کے جال سے بچھا جائے اور کچھ ایسی تگڑم کی جائے کہ خسارہ ظاہر ہونے پر دولت کی بچت کا راستہ نکل آئے اور سرکاری خزانے میں رقم نہ جمع کرانی پڑے۔
یہی سوچ تھی کشور کمار کی 1957کے درمیانی عرصے میں جب وہ چاہتے تھے کہ نقصان اور خسارہ دکھا کر بڑے انکم ٹیکس بھرنے سے کنی کترائی جائے۔ اسی بنا پر انہوں نے بنگالی زبان کی فلم ’لوک چوری’ اور ’چلتی کا نام گاڑی‘ بنانے کا فیصلہ کیا۔
فلم کو ہر صورت میں ناکام بنانے کے لیے کشور کمار نے اپنے دونوں بھائیوں اشوک اور انوپ کمار تک کو اپنے ساتھ اس تخلیق میں ہیرو بنا کر پیش کرنے کا اعلان کر دیا۔ اوسط درجے کے اداکاروں کے ساتھ مدھو بالا کا انتخاب ہوا، جو اس سے قبل کشور کمار کے ساتھ ’ڈھاکے کی ململ‘ میں کام کر چکی تھیں۔
اداکارہ وینا کو مہمان اداکارہ کے طور پر پیش کرنے کا ارادہ بھی کیا گیا، ہدایت کار کے لیے کمل مجومدار کا نام تجویز کیا گیا لیکن یہ کیسی دلچسپ بات ہے کہ ’چلتی کا نام گاڑی‘ کے مہورت سے چند گھنٹوں پہلے انہوں نے اس فلم سے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کر لی کہ وہ تین گنگولی بھائیوں (اشوک، کشور اور انوپ) کو ایک ہی فلم میں ڈائریکٹ کرنے کے اہل نہیں!
ایسے میں بغیر ہدایت کار کے مہورت تو ہو گیا لیکن پھر بعد میں ستین بوس کو سائن کیا گیا، جو اس سے پہلے ’جاگرتی‘ نامی فلم بنا کر اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کا اعتراف کرا چکے تھے۔
کشور کمار نے یہ فلم اپنے پروڈکشن ہاؤس ’کے ایس فلمز‘ کے بینر تلے بنائی لیکن کمال ہوشیاری سے پروڈیوسر کے طور پر اپنے سیکریٹری انوپ شرما کا نام دیا۔ منصوبہ بس یہی تھا کہ فلم کی ناکامی پر گھاٹا دکھا کرمحکمہ انکم ٹیکس کے سامنے مظلوم بنا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کشور کمار کے ذہن میں اپنے والد کی کھٹارا گاڑی تھی، جو اکثر و بیشتر چلتے چلتے سر راہ دھوکہ دے جاتی۔ اسی لیے فلم کا موضوع بھی گاڑی ہی تھا جبکہ پس منظر گیراج رہا، بڑا بھائی اشوک کمار جہاں صنف نازک کے ہاتھوں دھوکہ کھانے کے بعد اُن سے دور بھاگتا تھا تو وہیں کشور کمار دل پھینک عاشق کے روپ میں نظر آئے۔
سب سے چھوٹے بھائی انوپ کمار بھی منجلے بھائی کے نقش قدم پر چل رہے تھے۔ فلم کی خاص بات تینوں بھائیوں کے استعمال میں رہنے والی گاڑی ’چمپیئن کار‘ تھی جس کا 1928 کا ماڈل فلم میں پیش کی گیا۔
عکس بندی شروع ہوئی۔ موسیقارسچن دیو برمن نے بیٹے راہل دی برمن کی معاونت سے مجروح سلطان پوری کے لکھے ہوئے بولوں پر دلوں کو گداز اور مسحور کرتی دھنیں ترتیب دیں۔ بھلا کون بھول سکتا ہے ’اک لڑکی بھیگی بھاگی سی،‘ ’حال کیسا ہے جناب کا،‘ ’ہم تھے وہ تھے اور میں ستاروں کا ترانہ‘ جیسے مدھر گیت جن کی تازگی آج تک ذہنوں میں برقرار ہے۔
بہرحال بعد میں ایس ڈی برمن کو یہ الزام بھی سہنا پڑا کہ ان کے دو گیت، ’اک لڑکی بھیگی بھاگی سی،‘ اور ’ہم تھے وہ تھے‘ دراصل دو امریکی گلوکاروں مرلے ٹریوز اور ٹینسی ارنی فورڈ کے گیتوں کا چربہ تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس دور سے بالی وڈ میں آئٹم سونگ کی روایت برقرار تھی۔ جبھی ہیلن پر مجرے سے بھرا رسیلا خصوصی گیت فلم میں شامل کیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ ’چلتی کا نام گاڑی‘ کی عکس بندی کے دوران ہی کشور کمار اور مدھو بالا قریب آئے، اور دو سال بعد ہی دونوں نے بیاہ بھی رچا لیا۔
دیکھا جائے تو ’چلتی کا نام گاڑی‘ میں وہ سب کچھ تھا جسے دیکھنے کے لیے فلم بین سنیما گھر آتے ہیں۔ رومانس، ایکشن، کامیڈی، میوزک، جذبات اور احساسات یعنی بارہ مسالے کی بھرپور چاٹ۔
فلم میں اشوک کمار نے حسب روایت بہترین اداکاری دکھائی تو وہیں کشور کمار بھی اپنے الگ رنگ میں نظر آئے۔ دونوں بھائیوں کی جاندار اداکاری کے درمیان انوپ کمار جیسے پس پردہ چلے گئے۔ فلم بن کر 1958 کے ابتدائی دنوں میں جب سنیما گھروں میں پہنچی تو سمجھیں اس نے تہلکہ مچا دیا۔ ہر طرف یہی گاڑی چلتی نظر آنے لگی۔ گیت تو جیسے سپر ڈوپر ہٹ ہونے لگے۔ اُس سال ریلیز ہونے والی ’مدھومتی‘ کے بعد ’چلتی کا نام گاڑی‘ وہ دوسری فلم تھی جس نے کمائی کی دوڑ میں دیگر فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
اب یہیں سے کشور کمار کی پریشانی شروع ہوئی۔ جس مقصد کے تحت انہوں نے یہ فلم بنائی تھی، اس کے برعکس ہوا، یعنی کشور کمار پر اب مزید ٹیکسوں کا بوجھ لدنے والا تھا۔
ایسی صورت حال میں انہوں نے ہوشیاری دکھاتے ہوئے فلم کے سارے رائٹس پروڈیوسر اور اپنے سیکریٹری انوپ شرما کوفروخت کرکے اپنی دولت بچانے کی ایک بار پھر ناکام کوشش کی لیکن اس کے باوجود اُن پر انکم ٹیکس کا یہ معاملہ اگلے کئی برسوں تک چلتا ہی رہا۔
کشور کمار نے ’چلتی کا نام گاڑی‘ کی اسی کامیابی سے متاثر ہو کر 1974 میں ’بڑھتی کا نام داڑھی‘ بھی بنائی، جس میں وہ اور اشوک کمار تو تھے ہی ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے بیٹے امیت کمار تک سے اداکاری کروا دی۔ لیکن اس بار وہ ہٹ اور کامیاب فلم چاہتے تھے لیکن قسمت نے اُن کے اور فلم کے مقدر میں ناکامی لکھی۔
عین ممکن ہے کہ اسی فلاپ تخلیق کے سہارے اُن کے انکم ٹیکس کے معاملات اپنے انجام کو پہنچے ہوں۔